پاکستان

نیب کو بھیجیں یا پھر نااہلی

جولائی 18, 2017 3 min

نیب کو بھیجیں یا پھر نااہلی

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ نے پانامہ جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت کرتے ہوئے سوال اٹھایاہے کہ اثاثوں کی ملکیت تسلیم کرنے کے بعد اگر تفتیش کاروں کو مطمئن نہیں کیاجاتا تو کیا اثرات ہوں گے؟۔ بنچ کے سربراہ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ قانونی معاونت اس بات پر فراہم کی جائے کہ وزیراعظم آمدن سے زیادہ اثاثوں پر سپریم کورٹ میں جواب دیں گے یا پھر احتساب عدالت میں ٹرائل ہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن کاکہنا تھاکہ رپورٹ میں پیش کیے گئے مواد کو دیکھیں گے کہ کیس نیب کو بھیجیں یا پھر نااہلی کا فیصلہ کریں۔

عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ کے سامنے وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جے آئی ٹی کو ختم کیے گئے مقدمات کاجائزہ لینے یا دوبارہ کھولنے کی سفارش کرنے کا اختیار نہیں دیاگیاتھا، تحقیقاتی ٹیم عدالت کے مرتب کیے تیرہ سوالوں کے جواب تلاش کرنے تک محدود تھی مگر تجاوز کیاگیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ بند مقدمات بھی اگر لندن فلیٹوں کی ملکیت سے جڑے ہوںتو پھر کیاکیا جائے۔ تمام معاملات کو دیکھے بغیر تفتیش مکمل ہی نہیں ہوسکتی۔اصل چیز منی ٹریل کا سراغ لگانا تھا۔ وکیل نے کہاکہ تفتیش کار بند مقدمات کھولنے کی سفارش نہیں کرسکتے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل تیرہ اور فوجداری قانون کی شقوں کے تحت تفتیش پر فیصلے ٹرائل عدالت نے کرنا ہوتے ہیں، سپریم کورٹ صرف اس وقت فیصلے کرتی ہے جب تسلیم شدہ حقائق اور دستاویزات موجود ہوں، اس مرحلے پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کا کون سا حصہ درست اورکس حصے میں اپنے اختیار سے تجاوزکیاگیاہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ میرا مقدمہ یہ ہے کہ ٹرائل کورٹ سے پہلے یہ عدالت تفتیشی کے کام کے معیار کو دیکھ لے، یہ تفتیش کاروں کی حدود میں ہی نہ تھا کہ ازسرنو مقدمات کھولنے کیلئے کہتے۔ جے آئی ٹی نے چیئرمین نیب کو مقدمات کے ریکارڈ سمیت بلایا جس کا سپریم کورٹ نے اسے اختیار نہیں دیاتھا۔ جسٹس عظمت سعید بولے کہ محتاط ہوکر الفاظ استعمال کررہے ہیں کہ مقدمے پر اثر نہ پڑے، نیب کے پاس سترہ سال سے کیس موجود تھے کسی کو پروا نہیں، اس پر کیا کہوں، کیا چیئرمین نیب کو نہیں معلوم تھاکہ پانامہ پیپرز میں کیا سامنے آیاہے؟۔وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ نیب کو معاملات دیکھنا چاہئیں تھے، ہم نے پانامہ پیپرز کے عدالتی فیصلے اور قانون کے دائرے میں رہناہے، سپریم کورٹ چاہے تو پرانے مقدمات دوبارہ کھول سکتی ہے مگر جے آئی ٹی کو یہ اختیار نہیں تھاکہ ایسے نتائج اخذ کرتی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ جے آئی ٹی آمدن اور اثاثوں کی مطابقت تلاش کرنے کیلئے ہی بنائی تھی ، اس نے اپنی رپورٹ میں یہ فرق معلوم کرلیاہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آنے کے باوجود عدالت کو ہمارا موقف سنناہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جب ہر چیز دستیاب ہے تو پیش کیوں نہیں کی جارہی؟ ۔ اسی چیز کو دیکھنے کیلئے بیٹھے ہیں۔ وکیل نے کہاکہ تفتیش کوئی خفیہ کام نہیں ہوتا، ہمارے خلاف لائی گئی کسی ایک دستاویزپر بھی ہم سے سوال نہیں کیے گئے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ رپورٹ نہیں بلکہ جے آئی ٹی کی جانب سے اکھٹے کیے گئے مواد کو دیکھاجائے گا، عدالت تفتیشی کے لائے گئے مواد کو پرکھتی ہے، رپورٹ پر دلائل دے کر وقت ضائع نہ کیاجائے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ حسین نواز کو چھ مرتبہ بلایا گیا، آپ کہہ رہے ہیں کہ پوچھانہیں گیا، آپ وزیراعظم کے وکیل ہیں جنہوں نے جے آئی ٹی کے سامنے کہا کہ ان کو کچھ معلوم نہیں، وزیراعظم نے تقاریر میں کہاتھاکہ ریکارڈ موجود ہے مگر جے آئی ٹی کو کہاکہ یاد نہیں، ہوسکتاہے اسپیکر کو دیاہو، ایسی صورتحال میں تفتیش کار کیاکرتے؟۔وکیل نے کہاکہ تفتیشی ٹیم اپنے پاس موجود دستاویزات وزیراعظم کو دکھاتی جن کو رپورٹ میں شواہد یا ثبوت کہاگیاہے، جے آئی ٹی نے وزیراعظم سے کسی دستاویز پر کوئی سوال نہیں کیاجس پر وہ جواب دیتے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ وہ کہتے ہیں مجھے معلوم نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ تفتیشی ٹیم کے سامنے شریف خاندان کی اپروچ یہ تھی کہ کچھ نہ بتایاجائے، وزیراعظم نے کہاکہ وہ محمد حسین کو نہیں جانتے حالانکہ وہ ان کے خالو تھے، شریف خاندان کی کوشش تھی کہ جے آئی ٹی سب کچھ خود تلاش کرے۔وکیل بولے کہ مائی لارڈ، ایسے نہیں، ایسے نہیں، محمد حسین چالیس سال قبل وفات پاگئے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ محمد حسین گلف اسٹیل مل میں شراکت دار تھے کیسے یاد نہ آیا۔ وکیل نے کہاکہ چالیس سال پرانی بات صرف نام لینے سے یاد نہیں آتی، جب جے آئی ٹی نے حوالہ دیاتو وزیراعظم نے جواب میں رشتہ داری بتائی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے