پاکستان

سب نے غلط خبر چلائی، میر شکیل

جولائی 24, 2017 3 min

سب نے غلط خبر چلائی، میر شکیل

Reading Time: 3 minutes

جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان اور رپورٹر احمد نورانی نے توہین عدالت میں اظہار نوٹس پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا ہے۔ میر شکیل نے اپنے جواب میں روزنامہ جنگ کی اکیس جولائی کو شائع خبر میں غلطی کو تسلیم کیا ہے جو حسین نواز کی تصویر لیک درخواست کو مسترد کیے جانے کے بارے میں تھی۔ تاہم جواب میں میرشکیل الرحمان نے وضاحت کی ہے کہ یہی خبر ان کے اخبار دی نیوز میں درست شائع ہوئی تھی اس لیے روزنامہ جنگ میں غلطی دانستہ یا بدنیتی پر مبنی نہیں تھی۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ اکیس جون کو حسین نواز کی تصویر لیک درخواست مسترد کیے جانے کی خبر صرف روزنامہ جنگ ہی نہیں بلکہ دیگر کئی اخبارات میں بھی غلط رپورٹ ہوئی تھی جن میں ایکسپریس ٹریببون، نوائے وقت، روزنامہ نائنٹی ٹو، روزنامہ نئی بات اور جہان پاکستان اخبار شامل ہیں۔ میر شکیل الرحمان کے جواب میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ اس عدالتی حکم کے بارے میں ٹی وی چینلز کی رپورٹنگ بھی زیادہ مختلف نہ تھی،آج نیوز، اب تک ٹی وی، اے آر وائے، بول نیوز، کیپیٹل ٹی وی، دنیا ٹی وی، ایکسپریس نیوز، نائنٹی نیوز، پاک نیوز اور جیو نیوز نے بھی حسین نواز کی تصویر لیک درخواست کو خبروں میں مسترد کرکے نشر کیا۔ جواب میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ اخبارات کو خبریں جاری کرنے والی خبررساں ایجنسیوں این این آئی، آئی این پی، آن لائن، ایس ایس کے اور اے این این نے بھی غلط خبر چلائی، اس لیے اگر کسی ایک کے خلاف ’غیر شفاف اور غلط‘ خبر کا کہاجاتا ہے تو دیگر کو بھی اسی طرح دیکھنا ہوگا جس کے لیے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے تاکہ صرف ایک میڈیا گروپ کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔جواب میں میر شکیل الرحمان نے جنگ گروپ کے اعلی صحافتی اقدار اور روایات کا بھی ذکر کیا ہے۔ جواب کے آخرمیں کہاہے کہ اس تمام تر وضاحت کے باوجود پیش آنے والے واقعہ پر معذرت خواہ ہوں اور استدعا ہے کہ توہین عدالت کا نوٹس اس جواب کے بعد واپس لیا جائے۔
رپورٹر احمد نورانی نے اپنے جواب میں سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ انہوں نے تین اور چار جولائی کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے رابطہ کرکے آئی ایس آئی کو جے آئی ٹی کے معاملات سپرد کرنے کی خبر پر وضاحت حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم ناکامی ہوئی جس کے بعد جسٹس اعجازافضل کو چار جولائی کی رات سوا آٹھ بجے ان کے گھر کے نمبر پر رابطہ کیا، ایک منٹ کی دو ٹیلی فون کالیں کی گئیں۔ احمد نورانی نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ جسٹس اعجازافضل سے پہلی کال پر صرف اتنا کہاکہ ’ مجھے پانچ منٹ دیدیں، جس پر ان کا جواب تھاکہ ’یہ میرا طریقہ نہیں ہے شروع سے ہی، میں نہیں مل سکتا‘۔ اس کے بعد دوبارہ فون کرکے ان کے جے آئی ٹی کے انتظامی امور پر بات کرنے کا بتایا اور پوچھاکہ کیا ان کی رائے لی جاسکتی ہے،انتالیس سیکنڈ کی اس کال میں جسٹس اعجازافضل نے بہت پرسکون ہوکر تحمل سے بات کی اور فون منقطع نہ کیا، بلکہ میرا سوال سن کر اتنا کہا کہ ’عدالتی حکم سے متاثرہ فریق ان سے عدالت میں ہی رجوع کرسکتا ہے، ہمیشہ اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتا ہوں اور کبھی نجی طور پر عدالتی بات نہیں کرتا‘۔ احمد نورانی نے ماضی میں اخبارات کی خبروں کاحوالہ دیاہے جس میں ججوں سے رابطہ کرکے خبر کو مکمل کیا گیا تھا۔ احمد نورانی نے جواب کے آخر میں کہاہے کہ اس تمام تر وضاحت کے باوجود پیش آنے والے واقعہ پر معذرت خواہ ہوں اور استدعا ہے کہ توہین عدالت کا نوٹس اس جواب کے بعد واپس لیا جائے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے