’’ایک بار اور سہی‘‘
Reading Time: 5 minutesپی ٹی آئی کے سربراہ اربوں روپے لینے کا الزام لے کر عدالت گئے اور نااہلی دس ہزار قابل وصول درہم نہ لینے پر ہوئی جس کا عمران خان نے سرے سے مطالبہ ہی نہ کیا تھا۔ انہوں نے الزامات کی جو فہرست پیش کرکے نااہلی مانگی تھی، ان میں سے ایک الزام پر بھی نااہلی نہ ملی، اگر پھر بھی وہ اسے ’’اپنی‘‘ کامیابی سمجھتے ہیں تو اسے خوش فہمی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ عدالت نے پناما معاملے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی تاکہ اسے جلد از جلد نمٹا کر ملک کو کشمکش کی سیاست سے نجات دلائی جائے، یہ ایک معقول اور قابل فہم بات تھی۔ خان صاحب کے لگائے گئے الزامات کی بنیاد پکوڑا پیپرز پر تھی اور عدالت کے لئے پکوڑا پیپرز کی بنیاد پر فیصلہ ممکن نہ تھا، اس مشکل کا حل خود عدالت نے ’’جے آئی ٹی‘‘ کی صورت نکالا، یہ بھی ایک معقول اور قابل فہم بات تھی۔ سرکاری افسران پر حکمران اثر انداز ہو سکتے ہیں، انہیں ڈرا دھمکا بھی سکتے ہیں اور رام بھی کر سکتے ہیں، اس کا حل بھی یہ نکال لیا گیا کہ جے آئی ٹی کو حکومت کے بجائے سپریم کورٹ کی چھتری مہیا کردی گئی تاکہ جے آئی ٹی پر وہ حکمران اثر انداز نہ ہو سکیں جن کے خلاف اس نے تحقیقات کرنی تھیں، یہ بھی معقول اور قابل فہم بات تھی۔ جے آئی ٹی کا دفتر کسی وزارت کے تحت آنے والی عمارت کے بجائے جوڈیشل اکیڈمی میں قائم کیا گیا تاکہ سرکار کی چھت تلے بیٹھ کر سرکار کے خلاف تحقیقات کا تاثر قائم نہ ہو اور سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی ہی ایک ذیلی عمارت میں نظر آئے، یہ بھی معقول اور قابل فہم بات تھی۔ عدالت نے طے کیا کہ تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت کی عبوری رپورٹ ہر پندرہ روز بعد متعلقہ بنچ کے سامنے جمع کرائی جائے، یہ حکم اس لئے دیا گیا تاکہ نظر رکھی جا سکے کہ جے آئی ٹی اپنا کام سنجیدگی سے کر بھی رہی ہے یا محض ٹائم پاس کر رہی ہے، ظاہر ہے یہ بھی ایک معقول اور قابل فہم بات تھی۔ یہ تمام اقدامات اس حد تک معقول اور قابل فہم تھے کہ انہیں بھی ان پر اعتراض نہ تھا جن کے خلاف یہ اقدامات اٹھائے جا رہے تھے۔ وزیر اعظم صاف کہہ چکے تھے کہ وہ عدالتی احکامات کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں اور ہر لحاظ سے تعاون کریں گے۔ یہ اسی’’معقول اور قابل فہم‘‘ کا نتیجہ تھا کہ جب عدالت نے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو حکمران جماعت نے مٹھائیاں بانٹیں۔ وہ مٹھائیاں ایک لحاظ سے پناما کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے فیصلے پر اظہار اعتماد تھا۔ وہ مٹھائیاں ظاہر کر رہی تھیں کہ جے آئی ٹی سے تحقیقات کے فیصلے سے حکمران جماعت کو کوئی خوف لاحق نہیں ہوا ۔اور وہ مٹھائیاں کوئی ایسا ہی شخص تقسیم کر سکتا تھا جسے یقین رہا ہو کہ سپریم کورٹ کا یہ اقدام اس کی پاک دامنی ثابت ہونے کا شاندار موقع ہے کہ الزامات سے نجات کے لئے سپریم کورٹ سے بڑا کوئی فورم نہیں۔
بات تب بگڑی جب کچھ ایسی چیزیں ہونی شروع ہوئیں جو نہ تو معقول تھیں اور نہ ہی قابل فہم۔ سب سے پہلے وٹس ایپ کال کا معاملہ اٹھا۔ انصاف کے اعلی ترین فورم کا مروجہ ذرائع سے ہٹ کر غیر روایتی ذرائع مواصلات کی جانب جانا اس مقدمے اور خود سپریم کورٹ کے لئے اچھا شگون نہ تھا۔ اگر کسی کیس میں کوئی پولیس افسر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہو اور اس سے سوال ہو کہ اس نے فلاں اقدام کیوں اٹھایا ؟ اور وہ جواب میں کہے کہ مجھے وزارت داخلہ سے حکم آیا تھا تو ظاہر ہے اسے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ حکم وزارت داخلہ کے مصدقہ ای میل ایڈریس، مصدقہ فون نمبر، مصدقہ فیکس نمبر یا کسی معلوم افسر نے موقع پر موجود رہ کر دیا تھا۔ اگر پتہ چلے کہ جسے وزارت داخلہ کی ای میل کہا جا رہا ہے وہ رعایت اللہ فاروقی کے ای میل ایڈریس سے گئی تھی تو اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا کیونکہ یہ مصدقہ ذریعہ مواصلات نہ ہوگا۔ قطع نظر اس بات سے وٹس ایپ کو ذریعہ مواصلات کے طور پر استعمال کرنے کے پیچھے کیا حکمت تھی، مگر اس بات سے تو انکار ممکن نہیں کہ اس سے کیس کی شفافیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ خود سپریم کورٹ کے بنچ پر شک کے سائے منڈلانے لگے۔ اس معاملے کو فوری حل کرکے اس کا تدارک کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کا فائدہ کسے ہوا اور نقصان کسے ؟ یہ محتاج بیاں نہیں۔ دوسرا معاملہ جے آئی ٹی کے ان دو افسران کا رہا جن پر شریف فیملی نے عدم اعتماد کیا۔ بلال رسول اور عامر عزیز پر شریف فیملی کے اعتراضات ٹھوس اور معقول تھے لیکن مان لیتے ہیں کہ یہ ٹھوس اور معقول نہ تھے۔ کیا ان افسران کو برقرار رکھ کر شریف فیملی کو تحقیقات کی شفافیت پر مستقل سوالیہ نشان لگانے کا موقع دینا چاہئے تھا ؟ جب اتنی بڑی سیاسی فیملی کا معاملہ ہو جس کے لاکھوں ووٹرز اور کروڑوں سپورٹرز کیس کی پیش رفت پر نظریں جمائے بیٹھے ہوں تو لازم نہ تھا کہ تحقیقات کی شفافیت کو برقرار رکھا جاتا تاکہ کسی کو انصاف پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملتا ؟ فقط دو افسران کا ہی تو معاملہ تھا جن کی جگہ غیر متنازع افسران باسانی لائے جا سکتے تھے۔ تیسرا معاملہ حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کا تھا۔ جب طے تھا کہ تحقیقات ان کیمرہ ہوں گی تو پھر اس تصویر کا لیک ہونا ایک بہت بڑا بلنڈر تھا۔ تصویر لیک ہونے سے شریف فیملی کے دعوؤں کو تقویت مل رہی تھی اور اس سے کیس کی شفافیت کو مزید نقصان پہنچ رہا تھا۔ انصاف کے بجائے انتقام کا تاثر زور پکڑ رہا تھا جس کا تدارک لازم تھا اور یہ تدارک وہ بنچ ہی کر سکتا تھا جو اس پورے معاملے کی نگرانی خود اپنے ہاتھ میں لے چکا تھا۔ تصویر لیک کرنے کے ذمہ دار کا نام تک ظاہر نہیں ہونے دیا گیا اور آخر میں کہا گیا کہ حکومت چاہے تو اس کے خلاف کار روائی کر لے۔ جب طے کیا جا چکا تھا کہ حکومت کے انتظامی اختیارات جے آئی ٹی معاملے میں سلب رکھے جائیں گے اور یہ اختیارات بنچ ہی استعمال کرے گا جو معقول بات بھی تھی تو پھر تصویر لیک کرنے والے سے بھی بنچ کو خود نمٹنا چاہئے تھا جس سے سپریم کورٹ کی ساکھ کو زبردست فائدہ پہنچتا۔ چوتھا معاملہ طارق شفیع اور نیشنل بینک کے سربراہ سعید احمد کے جے آئی ٹی پر لگائے گئے الزامات کا تھا۔ ان الزامات کو بھی کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ اگر ان الزامات پر جے آئی ٹی سے باز پرس کرلی جاتی اور وہ ویڈیوز ہی منگوا لی جاتیں جو ان الزامات کی تصدیق یا تردید کرتیں تو یہ معاملہ بھی حل ہوجاتا۔ یہ وہ چار بنیادی معاملات ہیں جن کی وجہ سے اس کیس کی شفافیت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس کا اب شریف فیملی بھر پور سیاسی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یہ چاروں معاملات بہت آسانی سے حل کئے جا سکتے تھے اور اگر ایسا کر لیا جاتا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پہلے سپریم کورٹ اور اس کے بعد ملک کو ہوتا۔
پی ٹی آئی جن الزامات کی بنیاد پر سپریم کورٹ گئی تھی وہ تمام الزامات نیب اور احتساب عدالت کو بھیجے چکے، میرے بہت ہی محترم عامر خاکوانی فیصلہ آنے سے قبل ہی سوشل میڈیا پر لکھ چکے ہیں کہ اگر الزامات ماتحت عدلیہ میں گئے تو یہ سپریم کورٹ میں شریف فیملی کی جیت ہوگی۔ اگر عمران خان اسے اپنی جیت سمجھتے ہیں تو ماتحت عدلیہ میں جنرل مشرف شریف فیملی کو پہلے ہی بہت گھسیٹ چکا، عمر قید اور تاحیات نااہلیاں بھی نواز شریف کو دلوا چکا لیکن ان سزاؤں کو خود اعلی عدلیہ ہی لپیٹ کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک چکی۔ شریف فیملی کے لئے یہ کوئی نئی چیز نہیں، وہ تو یہی کہے گی کہ ایک بار اور سہی !
(روزنامہ 92 نیوز میں شائع ہوا)