پاکستان

ترجمان کے سچ

اگست 22, 2017 2 min

ترجمان کے سچ

Reading Time: 2 minutes

پاکستانی فوج کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن خیبر چار کی کامیابی کے ساتھ خاتمے کی نوید سنائی ہے _ اس پریس کانفرنس کے دوران ترجمان نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ راولپنڈی کے مدرسہ پر چند برس قبل عاشورہ کے جلوس کے دوران حملہ کرنے والے دراصل دیوبندی مسلک کے طالبان تھے اور انہوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی کی مدد حاصل تھی _ اس دعوے پر دیوبندی اور وہابی مسلک کے حامل افراد نے سوشل میڈیا پر سنجیدہ سوال اٹھائے ہیں _ بعض لوگوں کے نزدیک اس دعوے کے ذریعے ترجمان نے اصل ملزمان یا حملے کی منصوبہ بندی کے ذمہ داروں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے_

ایسے تمام افراد کے لیے جو ترجمان کے دعوے پر سوال اٹھا رہے ہیں بارہ سال قبل کی ایک خبر پیش خدمت ہے_

یکم دسمبر دو ہزار پانچ کے دن وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں ایک گھر پر میزائل حملہ کیا گیا جس میں القاعدہ کا ایک رہنما مارا گیا_ ملک بھر میں شور مچا کہ یہ حملہ امریکا نے کیا ہے تو فوج کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے ایک پریس کانفرنس میں دعوی کیا کہ حملہ پاکستانی فوج نے خفیہ اطلاعات پر کیا اور ہمارے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ مکمل طور پر صرف ہدف کو نشانہ بنا سکیں_ ترجمان نے قطعیت کے ساتھ امریکی حملے کی تردید کی_ اگلے روز قبائلی صحافی حیات اللہ خان نے حملے میں استعمال ہونے والے میزائل کے ٹکڑوں کی تصاویر ایک عالمی خبر رساں ادارے  کو جاری کر دیں جن پر جلی حروف میں ‘ہل فائر اور میڈ ان یو ایس اے’ لکھا ہوا تھا_

پانچ دسمبر دو ہزار پانچ کو حیات اللہ کو اغوا کر لیا گیا، اور اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ نے احتجاج کرتے صحافیوں کو اسلام آباد میں یقین دہانی کرائی کہ حیات اللہ چند روز بعد واپس آ جائے گا_ پھر چھ ماہ بعد حیات اللہ کی گولیوں سے چھلنی نعش ملی جس کے ہاتھوں  میں ہتھکڑیاں تھیں _ دوبارہ مظاہرے ہوئے اور ایک دن ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں بتایا کہ وہ کسی حیات الله نامی صحافی کو نہیں جانتے _ ایک امریکی صحافی نے قبائلی علاقوں میں کیے جانے والے آپریشن پ ڈاکومنٹری بنائی اور اس میں حیات اللہ خان کا بھی تذکرہ کیا، اس ڈاکومنٹری میں بھی انٹرویو کے دوران پرویز مشرف کے حیات اللہ کے بارے میں جھوٹ کو صحافی نے ڈکٹیٹر کے منہ پر بے نقاب کیا_

حکومت نے حیات الله کی بیوہ اور بچوں کے لیے چند لاکھ امداد کا اعلان کیا، اور پھر سنہ دو ہزار سات میں حیات اللہ کی بیوہ بھی گھر کی دیوار کے ساتھ لگائے گئے بم کے پھٹنے سے شہید ہو گئیں _

سچ بولنا ریاست اور اس کے ترجمانوں کی مجبوری ہے اس لیے جو لوگ اس پر سوال اٹھاتے ہیں وہ اپنے دماغی خلل کا علاج کرائیں _

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے