جسٹس دوست محمد نے تباہی پھیر دی
Reading Time: 6 minutesسپریم کورٹ سے اے وحید مراد
سپریم کورٹ نے ڈاکٹر عاصم حسین کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت تو دیدی ہے مگرسماعت کے دوران جسٹس دوست محمد خان کے تبصروں نے کئی سوالات کے جواب بھی فراہم کر دیے۔
تین رکنی عدالتی بنچ کے سامنے ڈاکٹر عاصم کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہاکہ سندھ ہائیکورٹ نے ڈاکٹر عاصم کی خرابی صحت کی بناء پر ضمانت منظور کی لیکن نام ایگزٹ کنٹرول فہرست میں شامل کردیا اور پاسپورٹ بھی اپنے پاس رکھ لیا۔ اب چونکہ ڈاکٹر عاصم بیرون ملک علاج کیلئے جانا چاہتے ہیں تو عدالت ہائیکورٹ کے فیصلے کو ختم کرے تاکہ وہ بیرون ملک جاسکیں۔ جسٹس قاضی فائر نے پوچھا کہ ڈاکٹر عاصم کو رینجرز نے کیوں حراست میں لیا تھا؟۔ وکیل نے کہاکہ ان پر کالعدم تنظیموں اور القاعدہ سے رابطہ رکھنے والے لوگوں کے علاج کرنے کا الزام ہے۔ جسٹس قاضی نے کہاکہ کالعدم تنظیموں کے افراد سے تو وزارت داخلہ چلانے والے بھی ملتے رہے ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے اس دوران سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ کچھ لوگ کمر درد کے علاج کیلئے ملک سے باہر گئے پھر واپس نہیں آئے۔
جسٹس طارق مسعود نے وکیل سے کہاکہ جب ہائیکورٹ نے ضمانت دی اس وقت بھی ڈاکٹر عاصم کی میڈیکل رپورٹس موجود تھیں پھر ایسا فیصلہ کیوں دیا گیا؟۔ وکیل نے کہا کہ عدالت نے ریلیف دیا مگر ساتھ ہی پاسپورٹ بھی اپنے پاس رکھ لیا، میڈیکل رپورٹ کہتی ہے کہ ڈاکٹر عاصم کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ جن میڈیکل رپورٹوں کی بنیاد پر ہائیکورٹ نے فیصلہ دے کر نام ای سی ایل میں ڈالا، کیا اب سپریم کورٹ بغیر کسی نئی رپورٹ کے بیرون ملک جانے کی اجازت دے سکتی ہے؟ اس حوالے سے کوئی عدالتی فیصلہ موجود ہے تو بتائیں۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ پہلے مقدمے میں حقائق عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ مسئلہ یہی ہے کہ ہائیکورٹ کے سامنے تمام میڈیکل رپورٹس موجود تھیں مگر ضمانت دیدی اور نام ای سی ایل میں شامل کر دیا، بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دی، اب سپریم کورٹ کیسے اجازت دے؟۔ دوسری جانب معاملہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی بیماری کی کوئی ہسٹری موجود نہیں، ڈاکٹر عاصم کو رینجرز کی حراست میں جانے سے پہلے کوئی بیماری نہ تھی، انہوں نے کبھی اسپرو کی گولی بھی نہیں کھائی۔
جسٹس دوست محمد نے ڈاکٹر عاصم کے وکیل سے کہا کہ ہم اس کیس میں ٹرائل کورٹ کو تیزی سے مقدمہ نمٹانے کی ہدایت کرسکتے ہیں، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کیونکہ ان کا علاج تو ویسے بھی ہو رہا ہے، اسی دوران ڈاکٹر عاصم کو عدالت میں حاضری سے استثنا کی درخواست بھی دیدیں، میڈیکل رپورٹس تو یہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر عاصم کے نفسیاتی مسائل بہت ہیں، وہ رینجرز والوں کی وردی دیکھ کر چیخنا شروع کر دیتے ہیں۔ جج کی اس بات پر عدالت میں نیب کے پراسیکیوٹر سمیت کچھ وکیل ہنسے تو ڈاکٹر عاصم کے وکیل لطیف کھوسہ غصے میں آگئے، بولے کہ مت ہنسیں، آپ میں سے کسی کو بھی رینجرز نوے دن کیلئے تحویل میں لے اور پھر الٹا لٹکائے تو میں دیکھتاہوں کون ہنستا ہے۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ میں نے ڈاکٹروں کی رائے کی بات کی ہے، جن کے مطابق ڈاکٹر عاصم کو نیند نہیں آتی اور وہ خواب آور گولیاں بھی لیتے ہیں۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ مائی لارڈ، میں آپ کی بات نہیں کررہا، یہاں عدالت میں بیٹھے جو لوگ ہنسے ہیں ان سے مخاطب ہوں۔ وکیل نے کہاکہ یہ میڈیکل رپورٹس نیب نے منگوائی تھیں مگر عدالت کے سامنے پیش نہ کیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر عاصم کے پورے جسم کو بیماریوں نے گھیرا ہوا ہے۔ وکیل نے کہاکہ ڈاکٹر عاصم کے شریک ملزمان کو انہی ریفرنسز میں باہر جانے کی اجازت دی۔ جسٹس دوست نے کہاکہ شریک ملزم کو طبی بنیادوں پر باہر نہیں جانے دیا گیا۔ وکیل نے کہاکہ شریک ملزم نے بیرون ملک کاروباری میٹنگ کیلئے جانا تھا اور نیب نے اجازت دیدی۔
جسٹس دوست محمد نے کہا کہ موجودہ حالات میں نیب میں پالیسی شفٹ آیاہے، ہوسکتا ہے کہ آپ کے موکل کی بھی لاٹری نکل آئے۔ (جج نے یہ بات معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہی تو سب لوگ ہنس پڑے)۔ اس موقع پر عدالت کو نیب کے پراسیکیوٹرناصر مغل نے بتایاکہ ہائیکورٹ کے سامنے میڈیکل رپورٹس نیب کی نہیں بلکہ ڈاکٹر عاصم کی درخواستوں پر بناکر پیش کی گئیں۔ڈاکٹر عاصم خود ضیاءالدین ہسپتال کے مالک ہیں جبکہ وہ پی ایم ڈی سی کے سابق چیئرمین بھی ہیں اس لیے کوئی ہسپتال ان کے اثر و رسوخ سے باہر نہیں، کوئی ہسپتال ان کی بیماری کے بارے میں درست رپورٹ نہیں دے رہا بلکہ ا ن کی مرضی کی رپورٹ تیار ہوتی ہے۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ اگر کسی ہسپتال نے ایسا کیا ہے تو ہم ریکارڈ منگوا کر اس کی غلط بیانی پر کارروائی کرسکتے ہیں کہ نظام انصاف میں رکاوٹ کیوں ڈالی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ تمام میڈیکل رپورٹیں جھوٹی ہیں۔ نیب کے وکیل نے کہاکہ ڈاکٹر عاصم کی میڈیکل رپورٹیں ’مینج‘ کی گئیں۔ اس موقع پر اپنی نشست پر بیٹھے وکیل لطیف کھوسہ نے ہنس پر نیب کے وکیل کی بات میں مداخلت کی تو جسٹس قاضی فائز ناراض ہوکر بولے کہ ’ہمارے وہی اصول آپ کے لیے بھی ہوں گے‘۔ لطیف کھوسہ نے فورا معذرت کرلی اور خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔
جسٹس دوست محمد نے نیب کے وکیل سے کہاکہ پھر وہ کون سی ایسی رپورٹیں ہوں گی کہ جن پر اعتماد کیاجاسکے؟۔اگر وہ پی ایم ڈی سی کے سابق چیئرمین ہیں تو کیا ابھی تک ادارے میں انہی کے بندے بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ حکومت بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ جس وقت یہ مقدمہ ہوا، نیب بھی رینجرز کے ریڈار میں تھا۔ وکیل نے کہاکہ گزشتہ برس اکتوبر میں ڈاکٹرعاصم زیادہ بیمار تھے اور وہیل چیئر پر تھے، اب تو وہ کافی بہتر ہیں اور جلسوں میں بھی جاتے ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ اگر یہی آپ کے دلائل ہیں تو پھر اس کیلئے الگ سے درخواست دائر کرتے اور اس میں ٹی وی اور اخبارات کے کلپ شامل کرتے جن میں یہ رپورٹ ہوتا کہ ڈاکٹر عاصم آج کل کسی ریسلر کی طرح عدالت کی طرف جارہاہے۔ اس طرح نہ کریں، دوہرا معیار نہ اپنائیں۔ کچھ مقدمات میں نیب کا فیصلہ کہاں ہوتاہے یہ آپ بھی جانتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ کیا نیب کا یہی معیار ہے کہ اس طرح دلائل دینے ہیں، اس قسم کے تبصرے کرنے کی بجائے قانون کے مطابق دلائل دیں۔ وکیل نے کہاکہ ڈاکٹرعاصم کو ایسی کوئی بیماری نہیں کہ زندگی خطرے میں ہو۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ اس کامطلب ہے کہ معمولی درد ہوتو اسے زندگی کیلئے خطرہ بن جانے والی بیماری بننے تک انتظار کیا جائے۔ ایک طرف بزنس ڈیل کیلئے جانے کو اجازت دی جاتی ہے اور دوسری طرف بیماری سے تڑپتے شخص کو بیرون ملک علاج کیلئے جانے کی اجازت نہیں۔
جسٹس دوست محمد نے نیب کے وکیل کو مخاطب کرکے کہاکہ ایک ادارہ تھا کراچی میں جو جعلی ڈگریاں بیچتا تھا، اربوں روپے کا معاملہ تھا، وہ سارے لوگ بھی رہا ہوگئے ہیں۔ اس پر نیب کے وکیل نے جواب دیاکہ وہ ایف آئی اے کا کیس تھا، اوراس میں اسلام آباد کے ایک سیشن جج کے خلاف اب کارروائی ہو رہی ہے کیونکہ اس پر پیسے لے کر فیصلہ کرنے کا الزام ہے۔ اس دوران جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ کیا نیب کسی ایجنڈے پر ہے، براہ کرم ملک کے تمام اداروں کو تباہ نہ کریں۔جسٹس دوست محمد کو ایک بار پھر جوانی کے دن یاد آگئے، بولے کہ پی ٹی وی پر ایک ففٹی ففٹی کے نام سے ڈرامہ چلتاتھا اس میں ایک شو میں ہاکی پر کمنٹری کرتے ہوئے کھلاڑی بہت آگے جارہاہوتا ہے کہ پیچھے سے کوئی اس کی کمر کے ساتھ پستول لگا دیتاہے، وہ ڈرامہ ہمارے معاشرے میں موجود برائیوں کی عکاسی کرتاتھا، کہیں نیب کے ساتھ بھی وہی والا معاملہ تو نہیں۔ اس کیس میں ابھی تک ڈاکٹر عاصم کے خلاف ریفرنس میں فرد جرم عائد کیوں نہیں کی گئی؟۔ نیب کے وکیل نے کہاکہ ہم تیارہیں، کئی پیشیاں ہوگئی ہیں مگر ممکن نہیں ہوسکا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ آپ کا مطلب ہے عدالت فرد جرم عائد کرنے کیلئے تیار نہیں، پھر اس جج کی شکایت کریں، نیب والے ’پک اینڈ چوز‘ کرتے ہیں، عدالت کاوقت غیرمتعلقہ چیزوں پر ضائع ہورہاہے۔ وکیل نے کہاکہ یہ ہائیکورٹ کا کام ہے کہ وہ ٹرائل کورٹ کے ججوں کو دیکھے، کیا نیب پھر ہرجج کے خلاف شکایت کرتا پھرے، ہمارا اپنا کام متاثر ہوگا۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ قانون کے مطابق تیس دن میں نیب ریفرنس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ وکیل نے کہاکہ تیس دن کے اندر ایسا کرناممکن ہی نہیں۔ جب لطیف کھوسہ جیسے نامی گرامی وکیل عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں توپھر وقت تو لگتاہے کیونکہ دلائل کے ساتھ مہلت بھی مانگی جاتی ہے۔ جسٹس دوست محمدنے کہاکہ پھر مقننہ سے کہیں کہ قانون میں ترمیم کرلے۔ نیب کے وکیل نے کہاکہ ہم تو خود قانون کی پیداوارہیں ہم کیسے حکومت کو قانون میں ترمیم کیلئے کہہ سکتے ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ نیب ترمیم کیلئے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو سفارش کر سکتا ہے۔ پھر کہا کہ بات وہی ہے کہ حتمی اتھارٹی مکمل کرپٹ کردیتی ہے۔ آپ اپنا ایمان مضبوط کریں، انسان میں ایمان کی مضبوطی ہونا چاہیے۔ نیب کے وکیل نے کہاکہ یہاں جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہو ایمان کی مضبوطی بھی اسی کی ہوتی ہے۔جسٹس دوست محمد نے کہاکہ اب آپ نے اصل بات کی ہے، معنی خیز بات ہے جو آپ نے زیرلب کر دی ہے۔
عدالت نے نیب کے وکیل سے پوچھاکہ نیب نے ڈاکٹر عاصم کی میڈیکل رپورٹس پر ہائی کورٹ میں کوئی اعتراض نہیں کیا، اب سپریم کورٹ میں اس معاملے کو کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔ جسٹس دوست محمد نے پوچھاکہ عدالت نیب کے اطمینان کیلئے ایسا کیاکرے کہ ڈاکٹر عاصم کو باہر جانے کی اجازت بھی دیدی جائے اور وہ علاج کے بعد واپس بھی آجائیں۔ اور دوسروں کی طرح بھاگ نہ جائے۔ وکیل نے کہاکہ یہ عدالت کی صوابدید ہے ہماری استدعاہے کہ ڈاکٹر عاصم کو بیرون ملک نہ جانے دیاجائے۔
بعد ازاں عدالت نے ڈاکٹر عاصم کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہاکہ جس دن وہ ملک چھوڑیں گے اس سے ایک ماہ کے اندر واپس آنے کے پابند ہوں گے جبکہ ساٹھ لاکھ روپے کا زرضمانت بھی جمع کرائیں گے۔ اسی طرح ان کے واپس آنے پر حکام ان کا نام ای سی ایل میں دوبارہ ڈالنے کیلئے آزاد ہوں گے۔