کالم

”ایجنٹوں کا مافیا“

اگست 31, 2017 5 min

”ایجنٹوں کا مافیا“

Reading Time: 5 minutes

سعادت حسن منٹو کا ”نیا قانون“ میں نے میٹرک کے امتحانات سے فارغ ہو جانے کے بعد پڑھ لیا تھا۔ اسے سمجھنے کے لئے کئی بار پڑھنا پڑا۔ اس میں چند تاریخی حوالے تھے۔ انہیں جانے بغیر اس افسانے کا بنیادی پیغام سمجھا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ خوش بختی سے ان دنوں تحقیق کی تھوڑی جستجو بھی مزاج میں موجود تھی۔ ان حوالوں کو جاننے کی کوشش کی تو پیغام پوری طرح سمجھ آ گیا اور وہ یہ پیغام ہے کہ ”منگو“ جیسے عامیوں کے لئے کچھ بھی نہیں بدلتا۔ ان کی قسمت میں مرحوم عباس اطہر کی ایک نظم میں بیان کردہ ”ایک سے رات دن اور تنہائیاں ہیں“۔
میں کوچوان تو نہیں- نام بھی میرا ”منگو“ نہیں۔ کسی نامی گرامی اور بہت ہی خوش حال گھرانے سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود خوش نصیب تھا کہ لاہور کے ایک مشہور اور ڈسپلن کے اعتبار سے معروف سکول میں داخلہ ملا۔ وہاں سے میٹرک کے بعد صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر اپنے شہر ہی کے شہرہ آفاق گورنمنٹ کالج میں جانا نصیب ہو گیا۔ اس کالج کے طلباءکی اکثریت میرے دور میں بی-اے، ایم-اے کرنے کے بعد سی ایس پی افسر بننا چاہتی تھی۔ اچھے نمبروں سے پاس نہ ہوجانے والے طلباءفوج میں جانے کے طلب گار ہوتے۔ مجھے لکھنے کی بیماری لاحق ہو گئی۔ ذہن مگر تخلیقی نہیں تھا۔ کافی دھکے کھانے کے بعد سمجھ آئی کہ کل وقتی صحافت ہی میرا شعبہ ہو سکتا ہے۔ 1975ء سے اس دھندے سے وابستہ ہو گیا۔ چند بڑے اور مشہور اخبارات کے لئے رپورٹنگ کا موقع ملا تو دن رات مشقت کی بدولت پھنے خان صحافیوں میں شمار ہونے لگا۔
صحافت میں تھوڑا نام کمانے کے باوجود میں اپنی موٹر سائیکل اور بعدازاں کارپر Press لکھوانے سے شرماتا رہا۔ مجھے قانون کا احترام کرنے کی عادت ہے۔ صحافیوں کا جو ٹہکا شہکا ہوتا ہے اس سے لطف اندوز ہونے سے گھبراتا ہوں۔ وجہ اس کی ہرگز یہ نہیں کہ میں بہت اصول پسند ہوں۔ درحقیقت میری مرحوم اور اللہ لوگ ماں نے میرے دل میں ضرورت سے زیادہ شرم ڈال دی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت بزدل ہو گیا ہوں۔
حقیقی زندگی مگر بہت ظالم شے ہے۔ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے تھوڑا ٹہکا شہکا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے اظہار سے البتہ جھجک محسوس ہوتی ہے۔ رویہ عام زندگی میں لہٰذا میرا سعادت حسن منٹو کے ”منگو“ جیسا ہی ہے۔ مجھ میں موجود ”منگو“ اپنی بیوی کو ورثے میں ملے مکان کی وجہ سے اسلام آباد کے اس سیکٹر میں رہتا ہے جہاں میری گلی کے بعد آصف علی زرداری کے مکان والی گلی آجاتی ہے۔ اس سیکٹر کو اسلام آباد کا خوش حال سیکٹر سمجھا جاتا ہے۔ اس ”خوش حال“ سیکٹر میں لیکن اب سی ڈی اے پائپ لائن کے ذریعے روزمرہ ضرورت کا پانی باقاعدگی سے سپلائی نہیں کرپارہا۔ میرے ہمسایوں کی اکثریت مگر اس سے پریشان نہیں۔ تقریباً ہر دوسرے گھر میں بورنگ کے ذریعے زیر زمین پانی کو ٹینکی میں جمع کر کے گزارہ کرنے کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ یہ بورنگ مگر غیر قانونی ہے اور مجھے قانون توڑنے سے خوف آتا ہے۔
اپنے چند صحافی دوستوں سے پانی کے حوالے سے ہر دوسرے روز خود پر نازل ہوتی مشکلات کا ذکر کیا تو وہ چراغ پا ہو گئے۔ فلاں فلاں کے نام لے کر ان کے فون نمبر دے دئیے۔ میں نے ان نمبروں پر فون کرنا شروع کر دیا۔ سی ڈی اے کا ٹینکر پانی لاتا تو مجھے مگر بہت شرمندگی ہوتی۔ اگرچہ ہمارے ہاں سی ڈی اے پانی کو فراہم کرنے کا جو ماہانہ بل بھیجتا ہے اسے آخری تاریخ سے پہلے جمع کرانے کی عادت ہے۔ یہ ٹینکر حاصل کرنا اس بنیاد پر میرا حق ہے۔ اس حق کے حصول کے لئے فلاں فلاں کو ہر دوسرے تیسرے دن فون کرنا مجھے بہت معیوب لگا۔
بالآخر دریافت یہ ہوا کہ اسلام آباد کے گھروں میں پانی سپلائی کرنے کے لئے چند ٹھیکے داروں نے ٹینکر رکھے ہوئے ہیں۔ فلاں فلاں کو فون کرنے کی بجائے میں نے اپنے ملازمین کو ”اتھارٹی“ دے دی ہے کہ پانی کی ٹینکی خالی ہونے کے قریب ان میں سے کسی ایک کو فون کر دیا جائے۔ ہفتے میں کم از کم دو بار ایسا ہوتا ہے۔ ایک پانی کا ٹینکر 2500 روپے کا ہے۔ یہ رقم اپنی سہولت کے تناظر میں بہت معقول اور معمولی نظر آتی ہے۔ بورنگ اپنے لان میں اب بھی نہیں کروائی۔ سی ڈی اے پانی ”فراہم“ کرنے کا بل بھی بھیج رہا ہے۔ وہ بھی باقاعدگی سے ادا ہورہا ہے۔ ”منگو“ بنے زندگی آسانی سے گزر رہی ہے۔
مجھ ”منگو“ کی مگر ایک کار بھی ہے۔ جولائی کے وسط میں اسے چلانے کے لئے ایکسائز کا ٹوکن حاصل کرنا تھا۔ ملازم کو پیسے دئیے۔ وہ ایکسائز کے دفتر جاکر یہ ٹوکن لے آیا۔ اطلاع مگر یہ بھی ملی کہ گاڑی کی Book لینے کے لئے ”مالک“ کو خود آنا ہو گا۔
مجھے اس قانون یا ضابطے کی ہرگز سمجھ نہیں آئی کہ ڈرائیور سے پیسے وصول کر کے اسے ٹوکن دے دو مگر Book واپس نہ کرو۔ قانون اور ضابطے مگر ریاست کے افسر بناتے ہیں۔ انہیں بنانے کا کوئی منطقی جواز نہیں ہوتا۔ اگر ایسا کوئی جواز موجود ہوتا تو کافکا جیسا ناول نگار پیدا نہ ہوتا۔ اس نے Trial جیسا ناول لکھا ہے۔ یہ ناول جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔ اصل میں اس کا عنوان Trial نہیں جرمن زبان کا وہ لفظ تھا جس کے قریب ترین انگریزی لفظ Process ہو سکتا ہے۔ Process کو اُردو میں شاید ضابطہ کار کہتے ہیں۔ کافکا نے ریاست کے بنائے ضابطہ کار کو امتحان یعنی Trialثابت کر کے کمال کر دیا ہے۔
اپنی گاڑی کی Book، جس کے ٹوکن کی رقم میرا ڈرائیور جمع کروا کے اسے سامنے کے شیشے پر لگا چکا تھا، حاصل کرنے کے لئے بالآخر مجھ”منگو“ کو متعلقہ دفتر جانا ہی پڑا۔ ڈرائیور کو خدشہ تھا کہ Book گاڑی میں موجود نہ ہوئی تو پولیس والے گاڑی بند کر دیں گے۔ مجھ سے زیادہ میری بچیاں ہماری گاڑی کو استعمال کرتی ہیں۔ مجھے خوف آیا کہ بچیوں سمیت گاڑی Book نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگئی تو وہ طعنے دے کر جینا محال کر دیں گی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ متعلقہ دفتر چلا گیا۔
وہاں پہنچا تو وہ کھڑکی جس کے سامنے قطار میں لگ کر مجھے اپنی اس کار کی Book واپس لینا تھی جس کے ٹوکن کی رقم ادا ہو چکی تھی، میرے بچپن کے سینما گھروں کی اس کھڑکی کا منظر دہرا رہی تھی جہاں ”بارہ آنے“ اور ”ڈیڑھ روپے“ والی ٹکٹیں بکا کرتی تھیں۔ دھکم پیل سے نبردآزما ہو کر متعلقہ کلرک تک پہنچنے کا حوصلہ نہ تھا۔
دریں اثناءتین چار افراد جنہیں ہم ”ایجنٹ“ کہتے ہیں میرے پاس آئے۔ ”صاحب کیا مسئلہ ہے؟“ ان کا سوال تھا۔ بات عیاں تھی کہ معقول معاوضہ طے کرنے کے بعد وہ مجھے وہ Book دلوا سکتے ہیں جو صرف گاڑی کا مالک بذاتِ خود کھڑکی کے سامنے قطار میں کھڑے ہو کر لینے کا مجاز تھا۔ دل تو چاہا کہ معاوضہ دے کر Book حاصل کروں اور گھر لوٹ جاﺅں۔ معاوضہ مگر مجھ ”منگو“ کو رشوت لگی۔ اسے دینے سے انکار کا عزم کیا اور متعلقہ دفتر کے کسی بڑے افسر کی تلاش شروع کر دی۔
بالآخر ایک کمرہ نظر آیا جس کے باہر بے پناہ ہجوم تھا۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح متعلقہ افسر کے PA تک پہنچ گیا۔ اسے اپنا کارڈ دیا۔ کافی انتظار کے بعد متعلقہ افسر نے بلوا لیا۔ ”منگو“ وہاں جاتے ہی شرم سے پانی پانی ہوا معذرت خواہانہ انداز میں اپنی مشکل بتاتا رہا۔ اس نیک دل افسر نے گھنٹی بجائی۔ اپنے PA کو میرے کوائف دئیے۔ تھوڑی دیر میں Book آ گئی۔ Book کے انتظار کے دوران میں نے متعلقہ افسر سے فریاد کی کہ دنیا بھر میں ٹوکن سسٹم ہوتا ہے۔ وہ متعارف کروا دیا جائے تو مجھ ایسے ”منگو“ اعلیٰ افسران کو زحمت نہ دیں۔ اس نیک دل افسر نے اطلاع یہ دی کہ ”ایجنٹوں کا مافیا“ ایسا کوئی سسٹم چلنے نہیں دیتا۔ اس دفتر کے اِرد گرد ایجنٹوں کی موجودگی پر پابندی لگائی گئی تو ان کی یونین عدالت میں چلی گئی۔ اسے رزق کمانے کے حق کے نام پر Stay مل گیا۔ ایجنٹ لہٰذا دندنا رہے ہیں۔ ”منگو“ پریشان ہیں۔ ٹی وی سکرینیں مگر اعلان کر رہی ہیں کہ 28جولائی 2017 کے عدالتی فیصلے کے بعد سے پاکستان بدل چکا ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے