آئی جی اسلام آباد اور انگریزی اخبار کا گٹھ جوڑ
Reading Time: 2 minutesوفاقی دارالحکومت کی ایک مرکزی شاہراہ پر دن دیہاڑے نہتے شہریوں پر فائرنگ کرکے ایک قتل اور دوسرے کو زخمی کرنے والے پولیس اہلکاروں کو بچانے کیلئے بہت سے اہم لوگ ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں مگر ان میں سب سے آگے نظر آنے والوں میں اسلام آباد پولیس کے سربراہ اور انگریزی اخبار ڈان کے رپورٹر ہیں۔
اسلام آباد پولیس کے اعلی حکام شہریوں پر فائرنگ کے واقعے کو پولیس مقابلہ بنانے کیلئے انگریزی اخبار ڈان کے رپورٹر کواستعمال کررہے ہیں۔ مسلسل دوسرے دن ڈان اخبار کے رپورٹر نے فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے حق میں توڑ مروڑ خبر شائع کی ہے۔ دوسری جانب انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون نے اپنی خبر میں بتایاہے کہ فائرنگ کرنے والے پولیس کمانڈوز جائے وقوعہ سے فرار ہوئے اور تاحال ان کو ایف آئی آر درج کیے جانے کے باوجود گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ اعجازحسین شاہ کو فائرنگ کرکے زخمی اور ساٹھ سالہ عنایت شاہ کو قتل کرنے والے پولیس اہلکاروں کی جانب سے جائے وقوعہ سے فرار ہی بہت کچھ بتارہاہے مگر اسلام آباد پولیس کے سربراہ کے ترجمان نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ پولیس نے کار سے پستول اور تین چلے ہوئے کارتوس برآمد کیے ہیں تاہم دوسری جانب پولیس فائرنگ سے زخمی ہونے والے اعجازشاہ نے ہسپتال میں بتایا کہ اس نے کبھی زندگی میں گولی نہیں چلائی۔ پولیس سربراہ کے ترجمان نے بتایا کہ گولی صرف ایک اہلکار نے چلائی اور وہ گرفتار ہو چکا ہے ۔ جبکہ ایف آئی آر میں چار اہلکاروں کا ذکر ہے لیکن نام نہیں لکھے گئے ۔
جائے وقوعہ پر موجود عینی شاہدین میں سے کئی ایسے ہیں جو پولیس کے خلاف بیان دینے کیلئے بھی تیار ہیں تاہم بہت سے لوگ پولیس کے خوف سے سامنے آنے سے انکار ی ہیں۔ راول ٹاﺅن جہاں یہ واقعہ پیش آیا کئی افراد ایسے ہیں جن کے پاس موبائل ویڈیوز موجود ہیں جن سے پولیس کی براہ راست فائرنگ کا پتہ چلتا ہے۔ ایسے کچھ افراد کاکہناہے کہ وہ صرف عدالت کے سامنے یہ ویڈیوز پیش کریں گے کیونکہ پولیس اس کیس میں خود فریق ہے اور وہ شہادتوں کو خراب کرکے مقدمہ اپنے پیٹی بھائیوں کے حق میں موڑ سکتی ہے۔ عینی شاہدین کا کہناہے کہ انہوں نے کار سواروں کی جانب سے کوئی گولی فائر ہوتے نہیں دیکھی۔
واقعہ کے تفتیشی افسر انسپکٹراحمد کمال نے اخبار ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اس نے ابھی تک وہ پستول نہیں دیکھا جس کے بارے میں آئی جی کے ترجمان نے کہاہے کہ وہ کار سے برآمد کیاگیا تھا نہ ہی گولیوں کے وہ خول جو جائے وقوعہ سے ملے تھے۔ تفتیشی افسر کا یہ بھی کہناتھاکہ جس طرف سے فائرنگ کی گئی اس میں ایک سے زیادہ ہتھیار استعمال ہوئے ہیں کیونکہ گاڑی پر دو مختلف ہتھیاروں کے گولیوں کے نشان ہیں۔ آئی جی کے ترجمان ضیا ءالقمر نے کہا کہ وقوعہ میں ملوث چار میں سے دو پولیس اہلکارجاوید اور جمیل ولی پکڑے جاچکے ہیں مگر دوسری جانب تفتیشی افسر نے کہاکہ ان کے علم میں نہیں کہ ملزم پولیس اہلکار کب اورکس نے گرفتار کیے ۔