متفرق خبریں

پانچ ’طالبان‘ کیوں بری کیے گئے؟

ستمبر 1, 2017 4 min

پانچ ’طالبان‘ کیوں بری کیے گئے؟

Reading Time: 4 minutes

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کے فیصلے میں پانچ مبینہ طالبان بری کیے جس پر بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جج محمد اصغر خان کے لکھے گئے چھیالیس صفحات کے فیصلے میں اس کی وجوہات تحریر کی گئی ہیں۔ فیصلے کے صفحہ ستائیس پر لکھا ہے کہ ’جہاں تک ملزمان رفاقت حسین، رشید احمد، حسنین گل اور اعتزاز شاہ کے اعترافی بیانات کا تعلق ہے تو انہوں نے بعد ازاں میری عدالت میں اپنے اعترافی بیانات سے لاتعلقی ظاہر کی۔ ریکارڈ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ حسنین گل اور رفاقت حسین کو سات فروری دوہزار آٹھ کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ ان کے بیانات تیرہ فروری کو لیے گئے اس طرح گرفتاری اور اعترافی بیان میں چھ دن کی تاخیر ہوئی۔ ملزم اعتزاز شاہ کو اکیس جنوری کو گرفتار کیا گیا جبکہ اس کا بیان سولہ فروری کو ریکارڈ کیا گیا اس طرح ستائیس دن کی تاخیر کی گئی جبکہ ملزم رشید احمد کو چودہ فروری کو حراست میں لیا گیا اور اس کا اعترافی بیان اگلے دن پندرہ فروری کو ریکارڈ کیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق ان ملزمان کو پہلے سے زیرحراست رکھے جانا اعترافی بیانات کی ساکھ کے بارے میں شکوک پیدا کرتا ہے کیونکہ اعلی عدالتیں اپنے فیصلوں میں قرار دے چکی ہیں کہ ایسے مقدمات جن میں ملزم کو سزائے موت یا عمرقید ہو سکتی ہے میں چند اہم احتیاطی اقدامات کیے جانا ضروری ہوتا ہے، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ ملزم کا اعترافی بیان لیتے وقت تفتیشی ادارے اس کے دماغ میں کسی بھی قسم کا خوف نہ ڈالیں، اسی طرح ملزم کو یہ یقین بھی دلایا جاتا ہے کہ وہ اعترافی بیان دیتے ہوئے محفوظ ہاتھوں میں ہے، اس کے علاوہ جس وقت ملزم عدالت میں اعترافی بیان دیتا ہے پولیس اہلکار خواہ وہ وردی میں ہوں یا سادہ کپڑوں میں ان کو باہر نکالاجاتاہے۔ عدالت کے مطابق اعترافی بیان کے وقت یہ بات یقینی بنائی جاتی ہے کہ ملزم رضاکارانہ طور پر اپنے جرم کا اقرار کر رہا ہے۔
جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ملزم اعتزاز شاہ وقوعے کے وقت کم عمر تھا اس لیے اس کا ٹرائل الگ کیا گیا، اعتزاز شاہ کو گرفتاری کے ستائیس دن بعد ایس پی طاہر ایوب نے مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان ریکارڈ کرنے کیلئے پیش کیا، اس وقت دیگر پولیس اہلکار عدالت کے باہر ہی کھڑے رہے۔ مجسٹریٹ نے ملزم سے اس کی گرفتاری کی تاریخ ہی نہ پوچھی، اسی طرح اعترافی بیان دیتے وقت اس سے نہ پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے کسی خون کے رشتہ دار سے ملنا چاہتا ہے؟۔ مجسٹریٹ کے سامنے ملزم کی عمر انیس سال بتائی گئی جو بعدازاں غلط ثابت ہوئی کیونکہ وقوعہ کے وقت وہ کم عمر تھا۔ ایس پی طاہر ایوب نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے بے نظیر قتل کی تفتیش کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کے سربراہ خالد قریشی کو ملزم کے اعترافی بیان کے بارے میں نہیں بتایا تھا، اس طرح یہ اعترافی بیان شک و شبہ پیدا کرتا ہے اور قانون میں اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
فیصلے کے پیراگراف ستائیس میں لکھا ہے کہ جے آئی ٹی کے رکن اور عدالت میں گواہ وقار احمد چوہان نے بتایا کہ وہ ڈی ایس پی صدر اور ڈی ایس پی سی ٹی ڈی کے ہمراہ اکیس جنوری دوہزار آٹھ کو ڈیرہ اسماعیل خان گئے جہاں اے ایس آئی بشیر حسین نے ملزمان اعتزاز شاہ اور شیرزمان کو پہلے سے ہی گرفتار کیا ہوا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ انسداد دہشت گردی کی دفعہ کے تحت در ج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے کے مطابق اعتزاز شاہ ایک اور شخص عصمت علی کے ہمراہ اس وقت پکڑا گیا جب وہ ایک غیر رجسٹرڈ گاڑی میں سوار تھا اور پولیس نے ان کو روکا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق اس ایف آئی آر میں جب کوئی ایسا الزام ہی نہ تھا تو دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کرنا شک پیدا کرنے کیلئے کافی ہے۔ اسی طرح استغاثہ اعتزاز شاہ کے ساتھ گرفتار کیے گئے عصمت علی کے بارے میں مکمل خاموش اور لاعلم ہے جس کو ڈیرہ اسماعیل خان پولیس نے غیر رجسٹرڈ گاڑی سے پکڑا تھا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق جہاں تک ملزم رشید احمد کے اعترافی بیان کا تعلق ہے تو اس کو ایس پی طاہر ایوب نے پیش کیا تھا تاہم ایس پی نے اپنے بیان میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ملزم رشید کو اس نے مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان کےلئے پیش کیا تھا۔ دوسری جانب ملزم کے بیان میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ وہ قتل کی اس سازش میں شریک تھا۔
ملزمان حسنین گل اور رفاقت حسین کی گرفتاری ویسٹریج پولیس کی جانب سے سات فروری دوہزار آٹھ کو دکھائی گئی ہے جس کے مطابق ان سے ایک ڈیٹونیٹر، تیس راﺅنڈز، ایک تیس بور کا پستول اور یاک ہینڈ گرنیڈ برآمد کیا گیا تھا، تاہم اس مقدمے میں ملزمان سے برآمد کیا گیا یہ اسلحہ نہیں دکھایا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزمان کو تیرہ فروری کو بیان ریکارڈ کرنے کیلئے پیش کیا گیا جبکہ دونوں ملزمان کو ایف آئی اے نے اپنی تمام رپورٹس میں گرفتار ظاہر کیا ہے، یہاں تک کہ پانچ جنوری دوہزار آٹھ کو ایف آئی اے کی حتمی رپورٹ میں بھی ملزمان کا ذکر ہے اس طرح ان کے اعترافی بیان ایک ماہ کی تاخیر سے ریکارڈ کرانا اس کو مشکوک بناتا ہے۔ دوسری جانب جے آئی ٹی کے رکن اور ایف آئی اے کے تفتیشی افسر وقار احمد چوہان نے اپنے بیان میں واضح کہا ہے کہ اس نے دونوں ملزمان سے اسی دن تفتیش کی جس دن آٹھ فروری کو وہ اس کی تحویل میں دیے گئے اس طرح یہ اعترافی بیانات مشکوک اور رضاکارانہ نوعیت کے نہیں ۔ ملزم شیرزمان کے بارے میں اس پورے مقدمے میں اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کہ ملزم اعتزاز شاہ نے کہا کہ شیرزمان اس سے ملنے آ رہا تھا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق جہاں تک مبینہ برآمد کیے گئے جاگرز، چادراور خودکش حملہ آور کی ٹوپی کامعاملہ ہے تو یہ سامان حسنین گل سے ملنے کی بات کی گئی لیکن یہ اشیاء عدالت کے سامنے پیش نہ کی گئیں اور کہا گیا کہ فرانزک لیبارٹی تجزیہ کیلئے بھیجا گیا ہے لیکن حیران کن بات ہے کہ تجزیے کی رپورٹ بھی عدالت کے سامنے نہ لائی گئی۔
عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ استغاثہ ان پانچ ملزمان کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے ۔
اے وحید مراد

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے