خواتین کیلئے اردو میں فیصلہ
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ نے ایک تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ غیر ریاستی عناصر خواتین پر تعلیم حاصل کرنے، ملازمت کے حصول اور کھیل کے میدان میں حصہ لینے کیخلاف نام نام نہاد جہاد کر رہے ہیں جو آئندہ نسلوں کیلئے انتہائی مہلک ہے، بدقسمتی سے پاکستان کی تقریبا آدھی آبادی پر مشتمل خواتین کو ہم نے فالج زدہ بنادیا، کافی خواتین پولیس، فوج اور دیگر اداروں میں باوردی امور اور مختلف اقسام کے خطر ناک بموں کو ناکارہ بنانے کی ملازمت اختیار کر چکی ہیں اور ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں، چوراہوں، سڑکوں اور سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں بھی خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے یہ قابل تشویش ہے جسکا خاتمہ ضروری ہے، خواتین کے آئین و قانون کے تحت بذریعہ ووٹ اظہار رائے کا حق بھی مردوں کے مرہون منت ہے، اسلام سے قبل عورت کو غلام اور حقارت سے دیکھا جاتا تھا، دین اسلام نے خواتین کو اعلیٰ مقام دیا،اسلام نے خواتین کو حق مہر اور وراثت میں حصہ دار گرداننے کے علاوہ بے شمار مراعات دیں ۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے یہ فیصلہ خیبر پختونخواہ کے شہید بے نظیر بھٹو ویمن کراسسز سینٹرز کی خواتین ملازمین کی مستقلی سے متعلق کیس میں دیا ۔ خیبر پختونخواہ کے چار اضلاع ایبٹ آباد، پشاور، سوات اور کوہاٹ میں شہید بے نظیر بھٹو ویمن کراسسز سینٹرز قائم ہیں جن میں تقریبا 32خواتین ملازمین کام کر رہی ہیں ۔ پشاور ہائیکورٹ نے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی اپیل خارج کرکے ان خواتین ملازمین کو مستقل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ ادارے نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی جو خارج کر کے ملازمین کی مستقلی کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ۔ جسٹس دوست محمد نے 6صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ قومی زبان میں لکھا ۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا ہے کہ پاکستان کی آدھی آبادی تقریبا خواتین پر مشتمل ہے جنھیں ہم نے بدقسمتی سے عضو غیر فعال بلکہ فالج زدہ بنادیا ہے، ملک کی آدھی آبادی کو مرد حضرات کے مکمل انحصار پر چھوڑ دیا، جن خواتین کو اعلیٰ تعلیم و تربیت کے مواقع ملے تو انھوں نے محکمہ جاتی ملازمت سے لیکر جنگجو سپاہی، پولیس، فوج انھوں نے خطرناک ملازمت اختیار کر کے اپنی ذہنی پختگی توانائی اور بہترین صلاحتوں کا مظاہرہ کیا اور موجودہ ملک کی غیر معمولی صورتحال میں کافی خواتین پولیس فوج اوردیگر اداروں میں باوردی امود اور مختلف اقسام کے خطرناک بموں کو ناکارہ بنانے کی ملازمت اختیار کر چکی ہے اور ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں ،مرد و خواتین میں دستور پاکستان کوئی فرق نہیں کرتا ،دونوں یکساں حقوق حاصل ہیں ،خواتین سے مختلف شعبوں میں امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے ، چوراہوں ، سڑکوں اور سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں بھی خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے یہ قابل تشویش ہے جسکا خاتمہ ضروری ہے ،خواتین کے آئین و قانون کے تحت بذریعہ ووٹ اظہار رائے کا حق بھی مردوں کے مرہون منت ہے ۔سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ خواتین کی بہبود و ترقی ریاست کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جس کا ہر ادارہ حکومت پابند ہے لہذا اس ناقابل تردید حقیقت کو رد کرنا عدالت کیلئے آئین و قانون سے انخراف کرنے سے مترادف ہوگا، اس دلیل کو آئین و قانون کے تحت تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کو عارضی ملازمین تصور کر کے انھیں ملازمت سے فارغ کر نا حکومتی صوابدید ی اختیار ہے،پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے میں کوئی آئینی و قانونی نقص نظر نہیں آتا، پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھ کر اپیل خارج کرتے ہیں