کون سا دشمن ؟
Reading Time: 3 minutesمیں نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا، بہت ہی ڈراؤنا ! کیا دیکھتا ہوں کہ نریندر مودی کو الیکشن میں شکست فاش دے کر بھارت کی تاریخ کے سب سے بھاری مینڈیٹ والی حکومت بنا بیٹھا ہوں۔ دنیا ابھی انگلیاں منہ میں دبائے بھارت کے اس پہلے مسلمان وزیر اعظم اور اس کے بھاری مینڈیٹ کو حیرت سے تک رہی تھی کہ میں نے فون اٹھایا اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا نمبر ملایا، اس کی حیرت میں ڈوبی آواز آئی
"مہاراج خیرت ؟ حلف اٹھاتے ہی مجھے کال ؟”
میں نے کہا
"مہاراج ہوگا تیرا باپ ! میں حضرت ہوں !”
اس نے فورا معذرت کرتے ہوئے کہا
"کیسے یاد فرمایا حضرت ؟”
عرض کیا
"کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد منظور کروا کر سو گئے ہو کیا ؟”
اس نے حیرت سے کہا
"میں سمجھا نہیں حضرت !”
عرض کیا
"جب یہ علاقہ آپ کی قراردادوں کے نتیجے میں متنازع ہے اور ہمارے اور پاکستان کے بیچ کشمیر کی لکیر سرحد نہیں بلکہ لائن آف کنٹرول ہے تو پھر اس کی حفاظت کی ذمہ داری ہماری ہوئی یا اقوام متحدہ کی ؟”
اس نے کہا
"میں سمجھا نہیں، آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں ؟”
میں نے بات بڑھاتے ہوئے کہا
"میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ اقوام متحدہ کی فوج بھیجیں جو لائن آف کنٹرول کا ہر مورچہ سنبھالے۔ ہم اپنی فوج ایل او سی سے ہٹانے لگے ہیں”
اس نے کہا
"میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرتا ہوں”
کچھ ہی دیر بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی کال آ گئی، اس نے کہا
"یہ تم کیا کرنے لگے ہو ؟ ہماری وار انڈسٹری کا کیا بنے گا ؟”
میں نے کہا
"ہیلو ! ہیلو ! ہیلو ! آپ کی آواز نہیں آ رہی، پندرہ منٹ بعد کال کریں”
یہ کہتے ہی میں نے فون بند کردیا اور وزیر مواصلات کو حکم دیا
"وائٹ ہاؤس کی ہاٹ لائن سے آنے والی ہر کال پر وہ والا کمپیوٹر میسج چھوڑ دو جس میں کہا جاتا ہے، آپ کا مطلوبہ نمبر فی الحال دوسری کال پر مصروف ہے، کرپیا کچھ دیر بعد کال کریں”
سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ایل او سی کے لئے فوج کی منظوری کا مرحلہ آیا تو امریکہ نے ویٹو کی دھمکی دیدی، روس اور چین نے اس کے ویٹو کو ویٹو کرنے کی دھمکی دے کر امریکی غبارے سے ہوا نکالدی۔ کچھ ہی دن میں ایل او سی پر تمام بھارتی مورچے اقوام متحدہ کی فوج نے سنبھال لئے اور بھارتی فوجیں بیرکوں میں آگئیں۔
اب میں نے دوسرا قدم اٹھاتے ہوئے اعلان کیا کہ پاکستان کے ساتھ ہماری سرحد پر بنے ہر مورچے تک دو رویہ سڑک جائے گی، ہر مورچہ واہگہ باڈر کی طرح پاکستان کے لئے انٹری پوائنٹ ہوگا اور ہر انٹری پوائنٹ پر واہگہ ہی کی طرح روز شام کو پرچم اتارنے کی تقریب ہوگی۔ آنا فانا اس حکم پر عمل شروع ہوگیا، دوسری طرف پاکستان نے بھی دو رویہ سڑکوں اور پرچم اتارنے کی تقریب کے انتظامات کر لئے۔ یوں پورے پاک بھارت باڈر پر ایک بھی ایسا مورچہ نہ رہا جہاں دونوں فوجیں ایک دوسرے پر بندوقیں تانے کھڑی ہوں، پوری سرحد ایک فیسٹیویٹی پوائنٹ بن گئی۔ ان اقدامات سے بھارت کا دفاعی بجٹ بڑھنے کے بجائے گھٹنے لگا اور جو رقم بچتی گئی وہ میں نے صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں پر لگانی شروع کردی۔
ان حالات میں ایک دن پاکستان کی ملٹری اکیڈمی میں سالانہ پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے آرمی چیف جنرل چوہدری ولایت حسین جنجوعہ نے کہا
"ہم دشمن کے خلاف اپنی تیاریاں جاری رکھیں گے۔ دشمن یاد رکھے ! ہم اس کی ناپاک سازشوں کا منہ توڑ جواب دیں گے !”
مجمع سے آواز آئی
"کونسا دشمن ؟”
بہت ہی ڈراؤنا خواب ہے قسم سے ! یقین نہ آئے تو کسی حوالدار سے پوچھ کر دیکھ لیں !