پاکستان

جج کا اختلافی نوٹ کیوں؟

اکتوبر 7, 2017 3 min

جج کا اختلافی نوٹ کیوں؟

Reading Time: 3 minutes

مری میں ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے کے لیے درختوں کی بے دریغ کٹائی کے علاوہ پہاڑوں کو بھی ہموار کیا جا رہا ہے، سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت دو سال سے جاری ہے، ایک طرف اعتزاز احسن جیسے وکیل پیش ہو کر سماعت ملتوی کرانے کی درخواست کرتے ہیں تو دوسری طرف طاقتور مافیا پیسے اور دھونس سے ماحول بچانے کیلئے عدالت کا رخ کرنے والے درخواست گزاروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ہے، اور اس دوران دو برس میں بچایا جانے والا علاقہ تباہ ہو جاتا ہے _

تین رکنی بنچ میں بیٹھا ایک جج یہ دیکھتا ہے اور جب بنچ کا سربراہ جسٹس اعجاز افضل ڈنگ ٹپاؤ فیصلے اور احکامات دینا جاری رکھتا ہے تو یہ جج اپنا اختلافی نوٹ لکھتا ہے، پڑھیے جسٹس قاضی فائز معاملے کو کیسے دیکھتے ہیں_

جسٹس قاضی فائز عیسی نے مری میں درختوں کی کٹائی اورغیر قانونی تعمیرات کے خلاف مقدمہ کے آرڈر میں اضافی نوٹ لکھتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ قومی خزانے سے تنخواہ لینے والے صوبہ پنجاب کے حکام عدالت عظمی کے حکم اور قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، اس حکم عدولی کے باعث ملک پاکستان کے عوام اور آئندہ نسلیں دائمی نقصانات کا سامناکریں گی۔ مری میں درختوں کی کٹائی سے متعلق از خود نوٹس کیس میں جمعہ کو جاری کئے گئے 12صفحات پرمشتمل اختلافی نوٹ میں عدالت عظمی کے فاضل جج نے لکھاہے کہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کاروبار ی مفادات رکھنے والے سرگرم ہیں جنہوں نے عوامی مفاد کی قیمت پر نجی منافع خوروں کی خدمت کےلئے حکومت پنجاب اور خود مختارصوبائی اداروں کے حکام سے روابط بنا رکھے ہیں ۔فاضل جج نے قرار دیا ہے کہ اس مقدمہ میں التوا حاصل کرکے ہر گزرتے دن کے ساتھ نیشنل پارک کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔جبکہ اس مقدمہ میں صوبائی سیکرٹری جنگلات، سیکرٹری جنگلی حیات و فشریز، ضلعی افسر برائے ماحولیات راولپنڈی، ڈائریکٹرراولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی جمشید آفتاب نے عدالت عظمی میں دیئے گئے حلفیہ بیان اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ہے جبکہ تعمیرات کرنے والی کمپنیوں نے بھی عدالتی حکم عدولی کی ہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسی نے مقدمہ کے تمام فریقین کو 18 اکتوبرکو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے تاکہ ان کے خلاف توہین عدالت قانون کی شق 204کے تحت کاروائی کی جاسکے۔ فاضل جج نے کہاہے کہ دستیاب ریکارڈکے مطابق وہ علاقے جن کوتباہی سے بچایاجانا ضروری تھا وہاں تشویشنا ک حد تک تباہی پھیلائی جارہی ہے اور متعلقہ حکام اس تباہی کے ذمہ داروں کو سہولیات فراہم کر رہے ہیں جبکہ اس ضمن میں واضح عدالتی حکم عدولی جاری ہے۔جبکہ نیشنل پارک اورتحفظ یافتہ علاقہ کو بچانے کےلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جارہا۔ جن لوگوں نے عوام کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے ان کی مدد سے بڑے منصوبے لائے جارہے ہیں فاضل جج نے راولپنڈی کی تین تحصیلوں مری ، کہوٹہ اور کوٹلی ستیاں میں تعمیرات اور درختوں کی کٹائی پر پابندی کا حکم نامہ بھی نوٹ کا حصہ بنایا ہے ۔ فاضل جج نے کہاہے کہ صوبائی ماحولیاتی ایجنسی بھی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی ۔ فاضل جج نے قرار دیا ہے کہ عوامی مفاد کے ایسے مقدمات جس میں یہ ظاہر ہو کہ غلط اقدامات ہورہے ہیں ان میں درخواست گزااپنی درخواست واپس لینے کا حق نہیں رکھتے، اس ضمن میں فاضل جج نے بھارتی سپریم کورٹ اور بلوچستا ن ہائیکورٹ کے دو فیصلوں کا حوالہ بھی دیا ہے، واضح رہے کہ جمعرات کو جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس مقدمہ کی سماعت کے بعد چیف سیکرٹری. سیکرٹری ماحولیات. سیکرٹری جنگلات اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی تھی کہ مری میں ہاﺅسنگ سکیموں تعمیرات کےلئے جنگلات کی کٹائی اور ماحول کو ہونےوالے نقصانات کے حوالے سے مفصل رپورٹ 10روز میں پیش کی جائے عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو فریقین کے ساتھ علاقہ کا دورہ کر کے تفصیلی رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرمری کے موضع کٹھار اور موضع منگل کا سروے کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہو توچیف سیکرٹری اور وزیر اعلی انہیں ہیلی کاپٹر فراہم کریں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ امید ہے اس ضمن میں معاملہ کے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کی جائے گی۔ عدالت کیس کی مزید سماعت 18اکتوبرکوکرے گی تاہم اس حکم کے باوجود فاضل جج نے اضافی نوٹ لکھا ہے کیونکہ وہ2015میں فیصلہ سنانے والے بینچ کے رکن تھے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے