اینکروں کی چمیوں کا فرانزک
Reading Time: 2 minutesٹی وی سکرین پر بیٹھے اینکرز کے ساتھ سکرین کے پیچھے کیا کچھ ہوتا ہے یہ کم لوگ ہی جانتے ہیں خاص طور پر جہاں مالکان میڈیا انڈسٹری کو فیکٹری کی طرح چلانے کی ذہنیت رکھتے ہوں وہاں تو اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ لاہور میں ایک ٹی وی چینل کی دو سینئر اینکرز کے درمیان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جنگ عروج پر تھی، ایسے میں دونوں میں سے سیٹھ کی قربت رکھنے والی اینکر کی چینل کی جانب سے ملنے والی سرکاری قمیض پر پہننے سے پہلے لپسٹک لگے ہونٹوں کے نشان پائے گئے، کافی شور شرابہ ہوا لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔ اگلے ہی دن دوسری شرٹ پر بھی زنانہ چُمی کے نشان پائے گئے، اس بار تو جیسے کہرام مچ گیا ہو۔ وارڈروب سیکشن سے میک اپ روم تک ہر جگہ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز منگوائی گئیں اور باضابطہ انکوائری شروع ہوگئی۔ ابتدائی انکوائری ناکام ہونے پر تحقیقات کا دائرہ ایسے وسیع کیا گیا جیسے کراچی کا چُھرا مار پکڑنے کیلئے منڈی بہائوالدین تک چھاپے مارے گئے۔ تمام اینکرز کو طلب کرکے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ تحقیقاتی ٹیم کے ذرائع کے مطابق ایک اینکر نے چُمی کے نشانات کا فرانزک کرانے کا طنزیہ مشورہ دیا جسے پنجاب پولیس کی طرز پر تفتیش کرنے والے ایس ایچ او نے گریٹ آئیڈیا جانا۔ تمام اینکرز سے مال مقدمہ یعنی چُمی زدہ شرٹ پر لپسٹک لگوا کر چُمیاں کروائی گئیں اور نشانات کا موازنہ کرانے کیلئے فرانزک لیب بھجوانے کا فیصلہ ہوا۔ کم و بیش دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی فرانزک لیب سے رپورٹ بالکل ایسی ہی نہیں آئی جیسے آج تک کسی طیارہ حادثے کا بلیک باکس ڈی کوڈ ہوکر نہیں آیا۔
جیسے پاکستان میں ہر خوشی کے موقع یا بڑے دھماکے کے بعد ڈبل سواری پر پابندی عائد ہو جاتی ہے بالکل ایسے ہی واقعہ کے بعد مذکورہ چینل انتظامیہ نے میک اپ روم میں بیٹھنے سمیت وارڈروب سیکشن اور چینجنگ روم تک میں کیمرے لگا دیے۔ اب اینکرز کپڑے تبدیل کرنے کیلئے واش روم جاتی ہیں جہاں اس کام کیلئے الگ سے جگہ مختص کی گئی ہے۔
راوی سمجھتا ہے کہ پاکستان میں بننے والے تحقیقاتی کمیشنز کی طرح اس تحقیقات کی بھی رپورٹ نہیں آنی اور تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے شاید چینل انتظامیہ کو جے آئی ٹی بنانا پڑے کیونکہ سنا ہے انکی رپورٹ نہ صرف آ جاتی ہے بلکہ اگلے پچھلے کچے چٹھے کھول دیتی ہے۔ نعیم قینچی کے مطابق ممکن ہے تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے شاید خود ہی رپورٹ سامنے نہ لائیں بالکل ایسے ہی جیسے تصویر لیک کرنے والے ذمہ دار کا نام کئی ماہ سے حکومت کے پاس ہے لیکن سامنے نہیں لایا جا رہا۔