پاکستان

خان نے ناک رگڑ دی

اکتوبر 26, 2017 5 min

خان نے ناک رگڑ دی

Reading Time: 5 minutes

الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن نے سماعت کی _ وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد عمران خان، جہانگیر ترین، فواد چوہدری اور شفقت محمود کے ساتھ کمیشن میں پیش ہوئے، اس دوران وہ کمرے میں بھی کالے چشمے پہنے رہے _

عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے  کمرہ عدالت میں دلائل شروع کیے اور کہا کہ سرکاری پراسیکیوٹر الیکشن کمیشن میں پیش نہیں ہوئے۔ میرے موکل الیکشن کمیشن میں موجود ہیں۔ عمران خان الیکشن کمیشن کا احترام کرتے ہیں۔سپریم کورٹ میں بھی میرے موکل پیش ہوتے رہے ہیں۔ بابر اعوان نے کہا کہ انتخابی اصلاحات میں تحریک انصاف کا اہم کردار ہے، الیکشن کمیشن کو آزاد خود مختار بنانے کے لیے تحریک انصاف نے اپنا کردار ادا کیا۔بابر اعوان نے عمران خان کے اداروں کے احترام کے حوالے سے کئی بیانات پیش کر دیے، بابر اعوان نے الیکشن کمیشن سے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کی تو کمیشن کے ممبر ارشاد قیصر نے کہا کہ کیا آپ نے غیر مشروط معافی مانگی یے۔ بابر اعوان نے کہا کہ ہم اس پر جواب جمع کرا چکے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے پوچھا کہ کیا تویین آمیز الفاظ بھی واپس لیے جا سکتے ہیں۔ بابر اعوان نے کہا کہ اس سے قبل عدالتیں اس طرح کے کیسوں پر کاروائی ختم کر چکی ہیں۔بابر اعوان کی طرف سے خیبرپختونخوا کے چیف جسٹس کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اس طرح کے معاملات نظرثانی کی درخواستوں میں پیش کیے جاتے ہیں۔ بابر اعوان نے کہا کہ ہم نے تین بار معافی مانگی ہے اسے قبول کیا جائے۔الیکشن کمیشن کے احکامات معطل ہونے کے باوجود ہم پیش ہوئے ہیں۔

درخواست گزار اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل میں کہا کہ معافی کے حوالے سے پانچ نکات سامنے رکھتے ہیں، ملزم کو احساس ہونا چاہیے کہ اس نے توہین عدالت کی ہے۔کیا ملزم نے معافی مانگی ہے۔معافی مخلصانہ ہونی چاہیے۔احمد حسن نے کہا کہ کیا ملزم کی معافی تمام قانونی تقاضے پوری کر رہی ہے۔عمران خان کی طرف سے شوکاز نوٹس میں الزامات کا جواب دینا ضروری ہے۔احمد حسن نے کہا کہ عمران خان ایک بار نہیں بلکہ کئی بار توہین عدالت کے اقدامات کر چکے ہیں۔اداروں کا احترام اس طرح نہیں ہوتا۔توہین عدالت کے حوالے سے قانون واضح ہے۔شوکاز نوٹس پر عدالت کے سامنے پیش ہونا ضروری ہے۔معافی نہ مانگنے پر سزا دینی چاہیے ۔

بابر اعوان نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن میں پیش کو کر معذرت کر رہے ہیں تو قبول کرنی چاہیے۔ کمیشن نے فائل بابر اعوان کو دیتے ہوئے کہا کہ آپ خود بتائیں اس عبارت میں کیا ہے _

عمران خان کی طرف سے بولے گئے الفاظ پر چیف الیکشن کمشنر اور بابر اعوان میں مکالمہ ہوا، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عمران خان کی طرف سے بولے گئے الفاظ آپ خود پڑھ کر سنائیں۔ بابر اعوان نے کہا کہ میں یہ الفاظ نہیں پڑھوں گا چاہے مجھے آپ اڈیالہ بھیج دیں۔بابر اعوان نے کہا کہ میں عمران خان کی جانب سے بولے گئے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ نہیں پڑھتے تو آپ کے مخالف وکیل سے پڑھا دیتے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان سے تحریری جواب طلب کیا، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اگر الفاظ پر غور کیا جائے تو کیا یہ توہین نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کیا کرنے چاہتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے بابر اعوان سے سوال کے بعد کہا کہ معافی نامے پر عمران خان کے دستخط ہونے چاہییں۔ اداروں کا کوئی احترام تو ہونا چاہیے۔

عمران خان کے وکلاء نے معافی نامہ سے متعلق عمران خان سے کمرہ عدالت میں مشاورت کی اور پھر عمران خان کے وکلاء کی جانب سے کمرہ عدالت میں معافی نامہ لکھا گیا، عمران خان کا معافی نامہ اور بیان بابر اعوان نے الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیا_

اس دوران کمیشن کے سندھ سے ممبر نے کہا کہ اس طرح کے الفاظ ادا کیے گئے ہیں جو آپ خود بھی نہیں پڑھ سکتے۔ کمیشن نے عمران خان کے معافی نامہ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور پھر چیف الیکشن کمشنر نے اکبر ایس بابر کے وکیل کو 20 ستمبر والا عمران خان کا بیان پڑھنے کی ہداہت کر دی _

اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے عمران خان کا 20 ستمبر کا بیان پڑھ کر سنایا، اس دوران بابر اعوان نے جگت بازی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے الیکشن کمیشن ممبران کی تقرری کی تھی۔  چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ یہ تو آپ ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر کے ریمارکس پر  کمرہ میں قہقہے گونج اٹھے، کمیشن کے رکن نے کہا کہ آپ غیر مشروط معافی نامہ جمع کیوں نہیں کراتے۔ ممبر الیکشن کمیشن ارشاد قیصر نے کہا کہ آپ کا معافی نامہ ہمیں سمجھ نہیں آیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے بابر اعوان سے کہا کہ آپ واضح طور پر بات کیوں نہیں کرتے، کمیشن کے رکن ارشاد قیصر نے کہا کہ آپ اپنے معافی نامے پر توہین عدالت کو تسلیم کریں، بابر اعوان نے کہا کہ آپ کی جانب سے ایسا سوال نہیں کرنا چاہیے۔ کمشنر نے کہا کہ جس میں آپ بار بار معذرت کر رہے ہیں وہ کیس ہم سن چکے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کے پارٹی فنڈنگ کیس کا معافی نامہ قبول کر لیا اور پھر کہا کہ 20 ستمبر والے ریمارکس پر توہین عدالت کا معاملہ ابھی باقی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عمران خان نے کراچی میں پریس کانفرنس میں بھی توہین آمیز الفاظ کہے تھے۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عمران خان خود اٹھ کر معافی مانگ لیں تو تمام درخواستیں خارج کر دیں۔عمران خان کمیشن کے سامنے ندامت کا اظہار کر دیں۔ کمیشن کے سندھ سے رکن آپ غیر مشروط معافی نامہ جمع کرائیں، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ نے ہمیں مافیا کہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اگر آپ معافی نہیں مانگیں گے تو ہم فرد جرم عائد کر دیں گے۔چیف الیکشن کمشنر کے ریمارکس پر عمران خان کے وکلاء نے ایک بار پھر کمرہ عدالت میں عمران خان سے مشاورت کی،

بابر اعوان نے دوسرا تحریری معافی نامہ جمع کرایا تو ممبر بلوچستان شکیل بلوچ نے عمران خان کو روسٹرم پر بلا لیا، عمران خان نے کہا کہ میری اکیس سال کی محنت ہے۔عدلیہ کی جدوجہد کے لیے سڑکوں پر نکلے۔الیکشن کمیشن کی خود مختاری اور آزاد میڈیا کے لیے جدوجہد کی، سب نے کہا 2013 میں دھاندلی ہوئی ۔عمران خان نے کہا کہ 126 دن کا دھرنا دیا جو بہت مشکل کام تھا۔عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ سے نکل رہا تھا تو صحافی کے سوال پر کہا معافی سے متعلق مجھے نہیں معلوم۔ عمران خان نے کہا کہ کوئی کسی کو پیسہ نہیں دیتا مگر میں سب سے زیادہ پسیہ اکٹھا کرتا ہوں، تنقید کا مقصد کارکردگی کو بہتر بنانا ہے، میں نے کبھی کوشش نہیں کی کہ الیکشن کمیشن کی تضحیک کروں، میری اکیس سال کی جدوجہد اداروں کی بالادستی کے لیے ہے، 1970کے علاوہ کبھی ملک میں شفاف الیکشن نہیں ہوا، توہین عدالت کا معاملہ غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا، میں نے اپنے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے پر سخت الفاظ بولے، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ایک سال سے یہ معاملہ چل رہا ہے، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپکو 21سال ہوگئے ہیں تو ہم 47 سال سے کیسز سن رہے ہیں، بعد ازاں الیکشن کمیشن نے عمران خان کی معافی قبول کرلی_

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے