مولانا، جسٹس اور وزیر
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد اور راولپنڈی کے لاکھوں شہری پندرہ دن سے شاہراہوں کے بند ہونے سے پریشان ہیں، اور ملک میں اس وقت سب سے بڑی اور اہم خبر ہی جڑواں شہروں کی سرحد پر دیا گیا دھرنا ہے _ ایسے میں ہر زبان پر یہی سوال ہے کہ اب کیا ہوگا؟_ یہی سوال اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی آج گونجتا رہا جہاں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں پیش ہوئے _
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دو دفعہ جاری کیے گئے احکامات کے باوجود دھرنا ختم نہ کرانے پر انتہائی غصے سے وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا تھا، دھرنا ختم نہ کرانے سے متعلق سوال پر احسن اقبال حضور پاک کی زات سے جڑے واقعات سنانے لگے، جسٹس شوکت نے پیاری پیاری باتیں پارلیمنٹ میں کرنے کا مشورہ دیا، احسن اقبال نے دھرنے کو مذاکرات سے ختم کرنے کے لیے وقت مانگا تو جسٹس شوکت بولے وقت پہلے مانگنا چاہیے تھا. عدالتی احکامات کے بعد عمل نہ کرنے پر تو توہین عدالت ہی ہو گی، جسٹس شوکت نے نے وزیر داخلہ کو دھرنا ختم کرنے سے متعلق زمہ داری بھی یاد دلائی، کہا دھرنا ختم کرانا آپ کا کام ہے جو ہم آپ کو یاد کرا رہے ہیں، عدالتی ریمارکس "you are helpless” جو کہ تین دفعہ دہرائے گئے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وزارت مذہبی امور سے یا انفارمیشن منسٹری سے لڑائی ہے، مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کی کسی نہ کسی سے لڑائی ضرور ہے،، جس وزیر داخلہ بھی مسکراتے ہوئے بول ہی پڑے کہ جسٹس صاحب آپ سب جانتے ہیں، جسٹس شوکت عزیز نے بھی ہنستے ہوئے بات ٹال دی _
لڑائی کس سے ہے؟ کیوں ہے؟ عدالت بھی جانتی ہے اور عدالت میں پیش ہونے والے بھی_ اب عوام کو بھی پتہ لگ ہی جائے کیونکہ لڑائی یا جنگ کسی سے بھی ہے، متاثر توعام عوام ہی ہو رہے ہیں، اور احسن اقبال صاحب کو عدالت میں تین دفعہ بے یارو مددگار کہنے کے ریمارکس بھی شرمندہ کر رہے تھے _
اب تو عام آدمی بھی سوچ رہا ہے کہ کیا حکمران جماعت بھی بے بس اور بے یارو مددگار ہو سکتی ہے؟