مطمئن نواز شریف عدالت میں
Reading Time: 3 minutesاحتساب عدالت میں بھاری بھرکم دلائل، گواہوں کی گواہیاں اور وکلا کی جرح، مگر آج کمرہ عدالت میں ماحول مختلف نظر آیا، لیگی رہنماوں کے چہرے کھلے کھلے، آپس میں خوش گپیاں لگاتے پائے گئے، نواز شریف 7 ویں بار تو مریم نواز اور کیپٹن صفدر 9 ویں بار پیش ہوئے، مریم نواز والد کے ہمراہ پہلے پہنچ گئیں، مگر اپنے سرتاج کو نہ پا کر بے چین دکھائی دیں، کبھی کسی سے پوچھ تو کبھی سے ۔ طلال چوہدری سے کیپٹن صفدر کو فون کرنے کی فرمائش کی ۔ کچھ ہی دیر میں جہانگیر جدون ایڈووکیٹ بولے کیپٹن صاحب پہنچ گئے، تب دل بے قرار کو چین آیا ۔ نواز شریف کا مزاج بھی بدلا بدلا پایا۔ چہرے پر اطمینان اور رپورٹرز سے گفتگو کرنے کی خواہش ان کی خاموشی میں بھی جھلک رہی تھی۔ جج محمد بشیر کی موجودگی خواہش پوری ہونے کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے خواجہ حارث کا جو تاخیر کا شکار ہوئے تو جج صاحب نے پندرہ منٹ کا وقفہ کر دیا۔ جیسے ہی جج محمد بشیر اپنے چیمبر میں گئے تو رپورٹرز نے نواز شریف کی طرف رخ کرلیا۔ میں نے فیض آباد دھرنے سے متعلق سوال پوچھا، جواب میں خوب دل کی بھڑاس نکالی، مذہبی جماعت کے دھرنے سے سیدھا 2014 کے دھرنے میں لے گئے، پھر اپنی حکومت کی کامیابیاں گنوائیں، اور بات کرپشن کی طرف موڑ دی، پہلے وار میں وزیراعلی خیبر پختوانخواہ کو زیر کیا، بولے وہ سرکاری وسائل پر، سرکاری پٹرول اور پیسے سے دھرنے کی قیادت کرتے رہے، پھر انہوں نے عمران خان، جہانگیر ترین اور علیم خان پر تنقید کی ٹرین چڑھا دی، کہا کرپشن میں ملوث یہ تینوں لوگ مختلف اسکینڈلز میں ملوث ہیں، پہلی بار عمران خان کا نام لیکر نواز شریف تنقید کررہے تھے، اور الزام بھی کرپشن کا دھر دیا، میرے لیے یہ بات معمولی نہیں تھی، کیونکہ نواز شریف بھی الزامات کی سیاست کررہے تھے، ابھی الزامات کی بارش ہورہی تھی کہ جج کی آمد سے سارے بادل چھٹ گئے، اور برسات وہیں تھم گئی۔ نواز شریف کا مزاج بتا رہا تھا وہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کا بل مسترد ہونے پر بہت خوش ہیں تاہم دھیمے لہجے والے انکے وکیل خواجہ حارث اتنے ہی غصے میں پائے گئے۔ ایک دو نہیں، بارہانیب پراسیکوٹر اور خواجہ حارث کی جھڑپیں ہوئیں۔ نیب پراسیکوٹر افضل قریشی نے دو تین بار مشکل میں پھنسے گواہ کو نکالنے کی کوشش کی تو خواجہ حارث بھڑک اٹھے۔ بولے یہ لقمے کیوں دے رہے ہیں؟ نیب پراسیکوٹر نے کہا ہم لقمہ دینے کے لیے ہی کھڑے ہیں۔ جج محمد بشیر کو مداخلت کرنا پڑی ’’اگر ایسے کرنا ہے تو پھر میں چلا جاتا ہوں ۔ خواجہ حارث بھی آج غصے میں لگ رہے ہیں‘‘ انہوں نے ریمارکس دیے۔ خواجہ حارث نے گواہ پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کیا تو گواہ نے کہا یہ بری بات کررہے ہیں۔ وکیل صفائی بولے براکام میں نے نہیں کیا،آپ کررہے ہیں۔ خواجہ حارث غصے میں تھے تو نواز شریف چٹکلے چھوڑ رہے تھے۔ سامنے کھڑے رپورٹر شاہ خالد کی جیب سے پرس نکلا دیکھا تو فورا بولے ’’بھائی پرس گر رہا ہے سنبھال لو، کسی نے نکال لیا تو نیب والے یہ بھی مجھ پر ڈال دیں گے‘‘۔ مریم نواز سمیت دیگر لیگی رہنماوں نے قہقہ لگا کر جواب دیا۔ نواز شریف کا ہلکے پھلکا انداز دیکھ کر صحافی عدالتی کارروائی کے بجائے نواز شریف کی طرف متوجہ ہو گئے۔ کمرہ عدالت میں وزراء ٹولیوں کی شکل میں کھڑے خوش گپیاں کرنے لگے۔ تین تین وزرا کی ٹولیاں آپس میں مزاح بکھیر رہی تھیں مگر جب نظر کیپٹن صفدر پر پڑی تو وہ نیب کی پراسکیوشن ٹیم کے ساتھ بیٹھے پائے گئے، اور تو اور ان سے گفتگو میں بھی اتنے مگن جیسے اپنے مخالفین سے نہیں، دوستوں کے ساتھ گپ شپ کر رہے ہوں۔ جب سے ریفرنسز شروع ہوئے پہلی بار لیگی قیادت اور وزراء کو اتنا اطمیان میں پایا کیونکہ مریم نواز بھی کسی بات پر زندہ باد کا نعرہ لگاتے سنی گئیں۔ خواجہ حارث نے گواہ پر سخت سوال کیے تو مریم نواز جاننے کی کوشش میں بے چین ہوگئیں پھر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ گواہ کے پاس کچھ نہیں اس لیے پھنسں چکا ہے۔ مریم نواز فاتحانہ انداز میں مسکرا کر پرویز رشید سے گفتگو میں مصروف ہوگئیں۔ اتنا اطمینان کس لیے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے وزراء کے ایک ٹولے کے پاس جاکھڑا ہوا۔ اس سے قبل میں پوچھتا انہوں نے مجھ پر سوال داغ دیا ہاں بھئی فیاض میاں کدھر گئی شیخ رشید کی ستر بندوں کی لسٹ؟ اس سوال نے مجھے وزراء کے اطمیان اور نواز شریف کے خوشگوار موڈ کا جواب دیا ہی تھا کہ میرے عقب سے آواز آئی کہ کل وہ لسٹ شیخ صاحب لپیٹتے ہوئے پائے گئے تھے ۔ ساتھ ہی وکیل نے کہا میاں صاحب اور مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی گئی ۔