کالم

نون، جنون اور قنون

دسمبر 17, 2017 7 min

نون، جنون اور قنون

Reading Time: 7 minutes

تحریر مطیع اللہ جان

کنویں میں کتا مرا پڑا ہے، انصاف کے ترازو کے پلڑوں سے آخر کتنا پانی نکالیں گے تو پانی پینے کے قابل ہو گا؟ کوئی مرا ہوا کتا بھی تو نکالے۔اور پھر پانی ترازو کے پلڑوں سے نہیں سیاست کے بڑے ڈولوں سے ہی نکلے گا چاہے ان میں کتنے ہی چھید ہوں۔مگر ہم سہمے ہوئے محروم ، مظلوم اور پیاسے عوام ہیں کہ ہر ایک پلڑا پانی نکلنے پرتالیاں بجاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ کنواں کچھ تو پاک ہوا۔
جنرل مشرف جیسے آئین سے سنگین غداری کے ملزم فوجی آمروں کے احتساب اور اسکے گماشتوں کی جاری سازشوں کو روکے بغیر منتخب نمائندوں سے متعلق حالیہ عدالتی فیصلے بھی اس ناپاک کنویں سے نکلے چند ترازو پانی سے زیادہ نہیں۔یہ ایسی وقت گزاری ہے کہ فیصلہ ساز اور فیصلہ لکھنے والے اپنا اپنا وقت اور نوکری بچ بچا کر گزارنے کے بعد سکون سے گھر بیٹھے پنشن اور مراعات کے ساتھ اپنی آخری عمر گزارنے کےلئے قانون اور آئین کی تشریح کرتے ہیں ۔ایسی تشریح کہ جس کی سمجھ آنے تک وہ عہدے پر نہیں ہوتے یا دنیا میں نہیں۔یہی وہ نوکری ہوتی ہے جس کو بچانے کی خاطر یہ لوگ اپنی جان پر کھیل کر یا تو بارہ اکتوبر کی کی بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں یا پھر دو ھزار سات کی وکلاء تحریک کی بنیاد رکھتے ہیں۔ حقیقت میں سارا کھیل اقتدار اور نوکری کا ہے۔انگریزی میں لکھے فوجی حکمرانوں کے عبوری حکم نامے ہوں،انکی توثیق کرنے والے پی سی او ججز کے فیصلے ہوں،یا غیر مسلح سیاستدانوں کو پھانسی چڑھانے یا انہیں نااہل قرار دینے والے انگریزی کے فیصلے ہوں ،سارا کھیل اپنی اپنی نوکری اور اپنے اپنے اقتدار کے لئے کھیلا جاتا ہے۔اس حوالے سے ہمارے پاکستانی قانون دانوں کا دماغ اتنا ذرخیز ہے کہ اگر انہیں امریکی عدالت کا جج بھی لگا دیا جائے تو یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نااہل قرار دے کر امریکی افواج سےاس فیصلے پر عمل درآمد بھی کروا لیں گے۔ہمارے قانون دان تو چیف جسٹس ارشاد حسن خان جیسے لوگ بھی رہے ہیں جو امریکی دورے پر اپنے أس فیصلے کو بڑے فخر سے اپنے میزبانوں میں تقسیم کرتے رہے جس میں انہوں نے جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کی توثیق کی تھی اور اسے آئین میں ترمیم کا وہ اختیار بھی سونپ دیا تھا جو خود انکےپاس بھی نہ تھا۔ایسے فیصلوں کی انگریزی اور انکی دلیلوں میں آج بھی کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آ رہا-پہلے فوج کا ڈنڈا نظر بھی آتا تھا،آج صرف محسوس ہوتا ہے ۔ارض پاکستان پر جو سیاسی صورتحال ہے اس میں آئین اور قانون کے مرچ مصالحوں کی من پسند مقدار کے ساتھ تیار کردہ انصاف کی ہانڈی میں شوربا ہی شوربا ہے۔
نواز شریف کے لئے ایمانداری، صداقت اور امانتدار ہونے کا جو اعلی معیار اپنایا گیا تھا وہ معیار عمران خان کے لئے نہیں اپنایا گیا- تین معزز ججوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ عمران خان کو انصاف دیتے ہوئے پاناما بنچ کے پانچ معزز ججوں کے ایسے ہی قانونی معاملات میں اتنے بڑے اور تاریخی فیصلے کا نکتہ بہ نکتہ حوالہ نہ دیا جائے۔حقائق تو ہر کیس کے مختلف ہوتے ہی ہیں مگر خان صاحب کے کیس میں بہت سے قانونی نکات نواز شریف کیس سے مماثلت رکھتے تھے مگر تین معزز ججوں نے انتہائی دانش مندی سے پاناما بنچ کے ایسے ہی قانونی حوالوں پر فیصلے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ شاید وہ نواز شریف اور عمران خان کے کردار اور شخصیت کا موازنہ کر کے خود کو یا عمران خان کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔حتیٰ کہ عمران خان مخالف وکیل ایڈوکیٹ اکرم شیخ کے دلائل میں موجود پاناما بنچ کے فیصلے کے حوالوں کو بھی عمران خان سے متعلق فیصلے میں شامل نہیں کیا گیا۔فیصلے کے شروع میں ہی قرار دیا گیا کہ پاناما کیس کے حقائق اور عمران خان نیازی کے خلاف کیس کے حقائق مختلف ہیں- مگر مسئلہ دونوں کیسوں میں قانونی نکات اور انکے بلا تفریق اطلاق کا تھا-قانونی نکات میں شدید مماثلت کے باوجودعمران خان سے متعلق عدالتی فیصلہ پاناما بنچ فیصلے کا حوالہ دینے سے واضح طور پر گریزاں رہا ہے۔حقائق مختلف ہونا ایک بات اور قوانین اور اصولوں کی مختلف تشریح دوسری بات ہے-
آئین اور قانون موم کی ناک ہے جس طرف موڑ لو یا کٹوا دو۔ مرضی ہو تو نیب جیسے اداروں کو حکم کے ذریعے مقدمات دائر کرنے کا کہہ دیا جاتا ہے اور مرضی نہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ حکومت چاہے تو خود ہی تحریک انصاف کو غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی پارٹی قرار دینے کا اختیار رکھتی ہے اور یہ کہ سپریم کورٹ اس مسئلے پر حکومتی دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرے گی۔مرضی ہو تو جے آئی ٹی بنا کر شریف خاندان کے ذرائع آمدن اور اثاثوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہےاور مرضی نہ ہو تو نیازی سروسز لمیٹڈ میں نیازی خاندان کے ڈائریکٹروں کی موجودگی اور اس آف شور کمپنی کی ملکیت سے متعلق خان صاحب کے اعتراف کے باوجود مزید تحقیق کے لئے کسی جے آئی ٹی کو ضروری ہی نہیں سمجھا جاتا کہ شاید کوئی "اقامہ ٹائپ ” چیز ہی نہ نکل آئے ۔
اسی طرح مرضی ہو تو ایک کی غلطی کو جرم اور دوسرے کے جرم کو غلطی قرار دے دیں۔فیصلہ کہتا ہے کہ عمران خان پر لازم تھا کہ وہ 1983 میں خریدے گئے لندن فلیٹ کو اپنے سالانہ ویلتھ ٹیکس کے فارم میں ذکر کرتے اور وہ ایسا نہ کر کے "ڈیفالٹر” ہوئے مگر سترہ سال بعد حکومتی ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھا کر وہ ہر قسم کی قانونی کاروائی سے محفوظ ہوگئے ہیں۔ یوں انہیں اسی بنیاد پر نااہل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ چلو یہ تو طے ہو گیا کہ قانون اور آئین صدارتی معافی یا نیب کی بدنام زمانہ "پلی بارگین” سے سیاستدانوں کو پوتر کر دیتا ہے یعنی ایک سیاستدان اگر سترہ سال بدعنوان یا ڈیفالٹر رہے تو ایمنسٹی اسکیم ،صدارتی معافی یا پلی بارگین کے بعد وہ صادق اور امین قرار پاتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں انگریزی میں آئین کی تشریح۔ تو ایسی رعایت شریف خاندان کے لئے کیوں نہیں؟ شریف خاندان پر بھی تو ایک الزام نوے کے عشرے میں مخصوص قانون سازی کرکے پیسہ باہر لے جانے کا الزام ہے-ایمنسٹی کے نقطے پر فیصلے کا نچوڑ یہ دیا گیا کہ عمران خان نے ماضی میں ٹیکس قوانین کی جو خلاف ورزی یا خیال نہیں کیا تھا وہ (جرم) ایمنسٹی کے قانون کے تحت دھل گیا ہے(یہاں بھی جائے وقوعہ ہی دھل گیا ہے اور داغ بھی)۔ دلیل دی گئی کہ جو تحفظ قانون دیتا ہے اسکے واپس لینے سے ریاست کی طرف سے دی گئی حلفیہ یقین دہانی کی حرمت پامال ہوتی ہے۔ تو کیا اب تمام ایس آر اوز،پلی بارگین اور صدارتی معافی، ایمنسٹی اسکیموں کا فائدہ اٹھانے والے اب وزارت عظمیٰ کا انتخاب لڑ سکتے ہیں؟
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان آف شور کمپنی نیازی سروسز کے ڈائریکٹر یا شیئر ہولڈر ہی نہیں مگر محض اس کے "بینیفشری” ہیں ، اس لئے انہیں "مالک” نہیں کہا جاسکتا کہ وہ 2013 کے انتخابات میں نامزدگی کے کاغذات یا اثاثوں کی تفصیل میں اسکا ذکر کرتے ۔ وہ جو خان صاحب سر عام کہتے ہیں کہ کمپنی انہوں نے بنائ تو کیا یہ شریف خاندان کے لندن فلیٹوں کی ملکیت کے اعتراف جیسی بات نہیں؟ اور نیازی سروسز میں بھی تو کمپنی کی ڈائریکٹر صاحبان خان صاحب کی ہمشیرگان تھی مگر پھر بھی "بے نامی” اثاثوں کے حوالے سے خان صاحب پر شک ہی نہ ہوا اور دوسری طرف نیلسن اور نیسکول کے علاوہ حدیبیہ ملز کے ڈائریکٹر صاحبان یا شیئر ہولڈرز کی فہرست میں نام نہ ہونے کے باوجود بے نامی ملکیت کے الزام میں نواز شریف آج بھی نیب عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔خان صاحب کی کمپنی محض نو پاؤنڈز کی نکلی تھی مگر شاید جے آئی ٹی میں کچھ اور بھی نکل آتا۔خان صاحب کی بھی نہ سنی گئی کہ آف شور کمپنی انکی ہے اور یہ کہ انہوں نے بطور غیر رہائشی برطانوی شہری یہ کمپنی اپنا حق سمجھ کر بنائی تھی۔ سپریم کورٹ نے بڑے طریقے سے خان صاحب کو سمجھایا ہے کہ یہ کمپنی آپکی نہیں ہے۔ کیا اب فیصلے کے بعد خان صاحب کہیں گے کہ نیازی سروسز انکی کمپنی ھے؟ اور دوسری طرف نواز شریف نے بارہا کہا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیاں میری نہیں مگر جج صاحبان نے فرمایا نہیں، کمپنیوں کی اصل ملکیت کے بارے میں تحقیقات ضروری ہیں۔ نواز شریف اور عمران خان کے مقدمات میں حقائق کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوتے عمران خان مخالف وکیل نے ہر قانونی نقطے کو پانامہ کیس سے مماٽلت کے ساتھ بیان کیا تھا۔ مگر عدالت نے فیصلے کے شروع میں ان دونوں کیسوں کو مختلف قرار دے کر عمران مخالف وکیل ایڈووکیٹ اکرم شیخ کے دلائل کی کمر توڑ دی۔ شروع کے تین پیراگراف میں ہی پاناما کیس کو ہر اعتبار سے عمران خان نااہلی کیس سے علیحدہ کر کے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کے دلائل کے بچے کھچے ڈھانچے کا بھی سرمہ بنایا گیا۔

پاناما فیصلے کو مدنظر رکھ کر اگر عمران خان کے حق میں فیصلے کاخلاصہ کیا جائے تو وہ یوں ہو گا۔
درخواستگزار (حنیف عباسی) کون ہوتا ہے جو تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ اٹھائے، ایسی پارٹی فنڈنگ کے خلاف تو وفاقی حکومت ہی کاروائی کر سکتی ہے۔ (مفادِعامہ، سوموٹو اور ازخود کاروائی تو حکومتی عدم فعالیت پر ہی ہوتی رہی ہے ناں؟)
سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی پڑتال ہمارا کام نہیں، الیکشن کمیشن کا ہے ۔مگر پھر بھی ہمارا "مشورہ” ھے کہ پیش کردہ اکاؤنٹس سے پانچ سال پیچھے تک کا ہی جائزہ لیا جائے۔ (قانون میں نہیں تو بھی خیر ہے)
اگر عمران خان نے غیر قانونی پارٹی فنڈنگ نہ ہونے کے جھوٹے سرٹیفیکیٹ پر دستخط کئے بھی ہیں تو اس حوالے سے پہلے الیکشن کمیشن فیصلہ دے پھر متعلقہ عدالت اس کا جائزہ لے گی(مگر پھر مفاد عامہ اور سو موٹو اختیارات سپریم کورٹ؟)۔
عمران خان کو جو پیشگی رقم کے عوض شاہراہ دستور کا جو فلیٹ "قابل الاٹمنٹ” 2014 میں تھا اس کا اثاثوں کی تفصیل میں ذکر نہ کرنا ایک بھول یا غلطی تھی ،بددیانتی نہیں۔ (ایک معاہدے کے تحت پیشگی ادا شدہ رقم کے عوض قابل وصول پلاٹ اثاثہ نہیں ہوتا اور ایک معاہدے کے تحت قابل وصول تنخواہ اثاثہ ہوتے ہیں؟)-

تو جناب حق، سچ، قانون اور دلائل بھی کسی فیصلے کا ایک اثاثہ ہوتے ہیں انکو چھپانے والے کی اہلیت پر تاریخ ہی فیصلہ لکھتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ عدالتوں کو مخصوص سیاسی حالات سے دور رہنا چاہیے وگرنہ بنیاد کی غلط اینٹ پر عمارت کی درست اینٹ بھی نہیں ٹھہر سکتی ۔ ایک غلط اینٹ پر غلط اینٹ رکھ کر ہی عمارت کو مضبوط بنانا مجبوری بن جائے تو بتا دینا چاہیے۔
قانون اور آئین کا اطلاق نون اور جنون پر بلا امتیاز ہونا ضروری ہے۔جانو ں کا جنوں اپنی جگہ مگر قانون کا “قنون” نہیں بنانا چاہیے۔ مرے ہوئے کتے کو کنویں سے نکالے بغیرترازوکے پلڑوں سے کتنا پانی نکال کر کنواں پاک کیا جا سکتا ہے؟ انصاف کے ترازو کو کھڑکا کر شور ڈالنے کی بجاۓ اس کو درمیان سے ایسا پکڑیں کہ خالی پلڑے برابر ہوں- جسکے بعد جسکے ٽبوت بھاری ہوں اسکا پلڑا بے شک بھاری ہو جاۓ- دونوں پلڑوں کو پکڑ کر یا چھوٹے موٹے باٹوں (نااہلیوں) سے برابر رکھ کر انصاف کا سودا نہیں بکتا-

Sent from my iPhone

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے