خطرہ مگر ٹلا نہیں
Reading Time: 5 minutesبالآخر ایک نہیں، تین فیصلے گزرے جمعے کے روز سپریم کورٹ سے آ گئے ہیں۔ تفصیلات میں الجھے بغیر ان فیصلوں کا ”یک-نکتی“ پیغام میری نظر میں یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے ذریعے ہمیں عمران خان یا شہباز شریف میں سے کسی ایک کو اپنا وزیر اعظم بنانا ہوگا اور یہ پیغام خلقِ خدا کی اکثریت کے لئے حیران کن نہیں ہے۔
جہانگیر خان ترین کی نااہلی بھی غیر متوقع نہیں۔ شریف خاندان کے چاہنے والوں کے لئے خوش گوار حیرت کا سبب اگرچہ حدیبیہ والا فیصلہ ہے۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر اس کیس سے بہت امید لگائے بیٹھے تھے۔ ”گاڈفادر-II“ کی رسوائی کے امکانات دیکھ رہے تھے۔ خطرہ مگر ٹلا نہیں۔ نجفی رپورٹ اپنی جگہ موجود ہے۔ کینیڈا سے آئے شیخ السلام اسے بروقت استعمال کریں تو شاید بات بن جائے۔ اس کے علاوہ رانا ثناءاللہ سے جڑا قضیہ بھی ہے۔ شہباز شریف کو دھرنوں کے ذریعے میدان باہر کرنے کے بعد مگر انتخابات کا وقتِ مقررہ پر کروانا بہت مشکل ہو جائے گا۔اگرچہ یہ شہباز شریف کے بغیر بھی ہوگئے تو عمران خان اور ان کی جماعت کے لئے ”دمادم مست قلندر“ کرنے کے لئے گلیاں سنجیاں ہوجائیں گی۔
ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ گزرے جمعہ کے دن جو فیصلے سنائے گئے ہیں وہ اپنی سرشت میں ہرگز حیران کن نہیں۔ چونکا دینے والا واقعہ ایک عزت مآب جج کا لکھا ہوا اضافی نوٹ ہے اور اس کے عین دوسرے روز چیف جسٹس صاحب کی لاہور میں ہوئی تقریر۔ لکھنا میرا ان دو واقعات کے بارے میں ضروری تھا مگر ”جی تو اپنا اداس ہے ناصر….“
میرے ایک بہت ہی شفیق سینئر تھے۔ افضل خان صاحب۔ مختلف النوع بیماریوں سے کئی برسوں تک باقاعدہ اور بہت ہمت سے جنگ لڑنے کے بعد امریکہ میں گزشتہ ہفتے کے آغاز میں انتقال کر گئے۔ ہم صحافیوں میں ان کے چاہنے والے بے شمار ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سی ایس پی افسربننے کے بجائے کل وقتی صحافت کا انتخاب کیا۔ سرکاری خبررساں ایجنسی APP کے اچھے بھلے عہدے پر پہنچ جانے کے باوجود آزادی صحافت اور کارکن صحافیوں کے حقوق کی جنگ میں ہمیشہ متحرک اور صف اوّل میں رہے۔ کئی غیر ملکی اخبارات کے لئے نامہ نگاری کی۔ اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ مگر وہ ہم جیسے ”فقرے“ صحافیوں کی دیکھ بھال میں خرچ کرتے رہے۔ اس دریا دلی کے سبب مرنے سے چند ہی ماہ قبل تک انہیں کئی گھنٹوںتک علی الصبح اُٹھ کر غیر ملکی اخبارات کے لئے خبریں اور کالم لکھ کر بھیجنا ہوتے تھے۔ رزقِ حلال کے لئے فرہاد جیسی مشقت بھگتنا پڑی تھی۔
ان کی رحلت مجھ ایسوں کے لئے ”خبر“ نہیں تھی۔ ہم اس کے لئے بلکہ کئی ہفتوں سے تیار تھے۔ اس کے باوجود جب ہونی ہوگئی تو ہاتھ پاﺅں پھول گئے۔ ذہن ماﺅف ہوگیا۔ ذاتی طورپر مجھے ایسے محسوس ہوا کہ کڑی دھوپ میں جاری سفر کے دوران میرے لئے جوبہت ہی کم سایہ دار شجر باقی رہ گئے تھے ان میں سے ایک اور کم ہوگیا۔ زندگی مزید اداس اور بے مزہ ہوگئی۔
افضل خان صاحب میرے ”بھاءجی“ تھے۔ میری ماں ہی کی طرح انہوں نے مجھے ”باقاعدہ“ بنانے کی بہت کوشش کی۔ میرے لباس پر اعتراض کرتے۔ کئی بار مجبور کیا کہ جو قمیض یا سویٹر پہن رکھا ہے اسے تبدیل کروں۔ کبھی انہیں رنگ ناپسند ہوتا اور کبھی یہ خدشہ کہ وہ مجھے سردی سے مناسب تحفظ نہیں دے پائیں گے۔انہیں گماں تھا کہ میں خوش لباس ہوں۔ خواتین مجھے Good Looking سمجھتی ہیں۔ گفتگو بھی اچھی کرلیتا ہوں۔ کسی موضوع پر بحث کے دوران مگر مجھے اپنے جذبات پر قابو نہیں رہتا۔ واہی تباہی بکنا شروع ہوجاتا ہوں۔ میرے اس رویے سے وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ کئی بار اُکتاکر انہیں وارننگ دیتا کہ اب تو جیسا ہوں اسی بنیاد پر بزرگوں کو مجھے قبول کرلینا چاہیے۔ وہ مگر ٹس سے مس نہ ہوتے۔ مجھے بہتر بنانے کی فکر میں مبتلا رہتے۔ جب بھی میری آواز بلند ہوتی فوراََ ٹوک دیتے۔ اکثر تنگ آکر میں نے انہیں ایک بری ساس کی طرح ہر بات میں کیڑے نکالنے کے طعنے بھی دئیے۔ ان کی شفقت سے ایسی بدتمیزی کے باوجود جان نہیں چھڑا پایا۔
میری مرحومہ ساس کی نظر میں انسان بنیادی طورپر دوقسموں میں تقسیم ہوا کرتے ہیں۔ مہمان اور میزبان۔ ”مہمان“ خود غرض ہوتے ہیں۔ دوسروں کو چاپلوسی پر مجبور کرتے ہیں۔ ”میزبان“ کا مقدر ”مہمانوں“ کی آﺅ بھگت اور دیکھ بھال کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بھاءجی افضل خان ایک مجسم اور مستقل” میزبان“ تھے۔ ملاقات ہوئے بہت دن گزرجاتے تو علی الصبح اُٹھ کر تین سے چار گھنٹے خبریں اور مضامین لکھ کر انہیں غیر ملکی اخبارات کے لئے بھیجنے کے بعد ہسپتال جاتے۔ دل کی سرجری کے دوران ان کی ایک رگ پر مستقل زخم آگیا تھا۔ اس سے رستے خون سے سینے پر جمی پٹی کو بدلوانے کے بعد گوشت کی دوکان پر چلے جاتے اور تھوڑی دیر بعد فون آتا کہ وہ بہت اچھے سری پائے دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ شام کو ان کے ہاں آنا ہوگا۔ وہاں موجود ہر دوست کی پسندیدہ ڈش کھانے کی میز پر سجی ہوتی ۔ ہم سب پریشان ہوکر شکایت کرتے کہ بیمار ہونے کے بعد انہیں ایسے تردد کرنے کا حق حاصل نہیں رہا۔ بہت ہوگئی۔ وہ ہماری فریاد ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے اور مجھے ڈانٹ پڑتی کہ بکرے کی زبان کا وہ ٹکڑا جو میرے لئے مختص تھا میں نے ابھی تک پلیٹ میں نہیں ڈالا ہے۔
افضل خان صاحب کا انتقال دسمبر میں ہوا ہے اور اس مہینے 1971 میں مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا تھا۔ افضل خان صاحب نے اس جدائی کو ہرگزفراموش نہیں کیا۔ وہاں جب فوجی آپریشن ہورہا تھا تو چند ہفتے کے لئے انہیں وہاں سے ”سب اچھا “ ہے والی خبریں لکھنے کو بھیجا گیا تھا۔ APPکی نوکری تو انہوں نے جیسے تیسے نبھائی مگر وہاں سے ہمارے ایک سینئر مسعود اشعر صاحب کو طویل خطوط لکھتے رہے۔ جانے ان خطوط کا کیا ہوا؟ محفوظ ہیں تو انہیں کتابی صورت میں ہمارے سامنے آنا چاہیے۔
متحدہ پاکستان کو بچانے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ جنرل یحییٰ نے سول اور فوجی افسروں کا جو وفد عوامی جمہوریہ چین بھیجا تھا، افضل خان صاحب اس کی رپورٹنگ کے لئے مامور ہوئے تھے۔ چینی قیادت نے جس انداز میں خود کو ہماری بچت نہ کرنے سے دور رکھا، اس کی تفصیلات ان سے کئی بار سنی ہیں۔ کاش CPEC کے سحر میں اُلجھے ان دنوں میں وہ ان تفصیلات کو مضامین کی صورت دہراپاتے۔
دوستوں کے مستقل اور مہربان ”میزبان“ افضل خان کو ذوالفقار علی بھٹو سے دائمی عشق رہا۔ بھٹو کی بیٹی نے مگر انہیں مایوس ودل برداشتہ کر دیا تھا۔ نواز شریف انہیں کبھی پسند نہیں آئے۔ 2011سے وہ عمران خان کے گرویدہ ہوگئے۔ عمران خان ذاتی اعتبار سے مجھے بھی کافی اچھے لگتے ہیں۔موصوف کی سیاست کا لیکن میں دائمی نقاد ہوں۔خان صاحب کو میری تنقید ہرگز پسند نہیں تھی۔ کئی گھنٹے سینکڑوں ملاقاتوں میں مجھے یہ سمجھانے میں ضائع کردئیے کہ عمران کی صورت میں قوم کو دوسرا بھٹو یا اس جیسا Populist مل گیا ہے۔
آپ سے کیا پردہ۔ اکثر میں صرف افضل خان صاحب کو چڑانے کے لئے عمران خان کے خلاف تنقید کرتے ہوئے ”مٹھا“ زیادہ ڈال دیتا تھا۔اس کا اصل مقصد خان صاحب کو کھانے کی ایک اور دعوت دینے اور وہاں ایک ڈانٹ بھرا بھاشن عطا کرنے پر مجبور کرنا ہوتا تھا۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ عمران خان کو اہل ٹھہرانے والا جو فیصلہ آیا ہے میں اس کے بارے میں خاموش اس وجہ سے بھی ہوں کہ بھاء جی اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ بات لکھنے میں کیا لطف جو افضل خان صاحب کو گوشت کی دوکان سے سری پائے قصائی سے طویل بحث وتکرار کے ذریعے خریدنے کے بعد مجھے فون کرکے اپنے ہاں شام کے کھانے پر بلانے کو مجبور نہ کر پائے؟!
بشکریہ نوائے وقت