پاکستان پاکستان24

خیبر پختونخوا پولیس اہل نہیں، سپریم کورٹ

فروری 6, 2018 4 min

خیبر پختونخوا پولیس اہل نہیں، سپریم کورٹ

Reading Time: 4 minutes

کوہاٹ میں قتل کی گئی میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی کے مبینہ قاتل کو پاکستان واپس لانے کے لیے سپریم کورٹ نے سکریٹری داخلہ کو طلب کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کے پی پولیس اپنی کارکردگی سے ثابت کرے کہ اس پر سیاسی دبائو نہیں۔ _
سپریم کورٹ میں عاصمہ رانی قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی _
سپریم کورٹ نے سیکرٹری داخلہ اور تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری کو بھی طلب کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ چاہے 8 بج جائیں انہیں آج ہی پیش ہونا ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ تحریک انصاف کے ضلع ناظم کوہاٹ آفتاب عالم کو تفتیش میں کیوں شامل نہیں کیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ فواد چوہدری کے پی پولیس کا بہت دفاع کرتے ہیں، اپنی چیز بہت اچھی اور دوسرے کی بری کہتے ہیں _ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں۔ اپنی پولیس اچھی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ فواد کہتے ہیں ھماری پولیس مثالی ہے، ان کی موجودگی میں کیس سنیں گے، بہت سی چیزیں ھاتھ سے نکل جاتی ہیں، کل بھی ایک واقعہ ہوا ہے، کے پی پولیس اپنی کارکردگی سے ثابت کرے کہ اس پر سیاسی دبائو نہیں۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا شاہزیب اور مجاہد کا موبائل ڈیٹا حاصل کیا گیا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ ملزم مجاہد کو دبئی سے کتنے عرصے میں واپس لایا جاسکتا ہے، ملزم کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے پڑیں گے، کیا ہم ریڈ وارنٹ جاری کر سکتے ہیں؟ ۔ اس سے قبل ڈی جی ایف اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ عاصمہ قتل کیس کا ملزم دبئی میں ہے یا سعودی عرب میں معلوم نہیں، لگتا ہے کہ ملزم نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کیا، ڈی جی ایف اے نے بتایا کہ ملزم کے پاس دبئی کا اقامہ ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ متاثرہ خاندان کا کوئی فرد عالت میں موجود ہے۔ پولیس افسران نے کہا کہ اگر پیش کرنے کا کہیں تو پیش کرسکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ پیش نہ کریں ہم انہیں عزت سے بلائیں گے۔ وقفے کے بعد وکیل فیصل چوہدری نے بتایا کہ فواد چوہدری لاہور ہائیکورٹ میں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان کو اب آنے کی ضرورت نہیں ۔ پتہ کریں پی ٹی آئی کے ضلع ناظم کوہاٹ آفتاب عالم کدھر ہیں ۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پختونخوا نے کہا کہ پولیس آفتاب عالم کو عدالت لا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 2 بجےتک ہمیں آفتاب عالم کو لانے کا کہا گیا تھا۔
آفتاب عالم کو عدالت میں پیش کیا گیا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کا بچہ کدھر ہے اسے واپس تو آ ہی جانا ہے ۔ چیف جسٹس نے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے فیصل چوہدری کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم نے انصاف کرنا ہے اپنے باسز کو بتا دیں۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے کوہاٹ کے ناظم اور ملزم کے چچا سے کہا کہ مجاہد کو لے آئیں اس کو حفاظتی ضمانت دے دیتا ہوں ۔ کوہاٹ کے ناظم آفتاب عالم نے کہا کہ ہمارا پورا خاندان مشکل میں ہے ۔ مجاہد کے والد بھی بیرون ملک ہوتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا غیرت مند پختونوں کو چھپ کر بیٹھنا چاہیے ۔ پختون توبہت غیرت مند ہوتے ہیں۔ آپ مجاید کے چچا ہیں اس کو ڈھونڈنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے لیے ملزم کو واپس لانامشکل نہیں ہے ۔ ریڈ وارنٹ بھی جاری ہو جائیں گے انٹرپول بھی چلی جائے گی۔ آج نہیں تو دس دن میں وہ واپس آ جائے گا۔ اگر آپ لائیں گے تو اسی میں آپ کی عزت ہے ۔ چیف جسٹس نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کیجئیے گا۔ اگر تحقیقات پر اثر انداز ہوئے تو چھوڑیں گے نہیں۔
آئی جی خیبر پختونخوا نے کہا کہ عاصمہ رانی قتل کیس میں سخت محنت اور شفاف تحقیقات کی گارنٹی دیتا ہوں ۔ ہم کسی قسم کا سیاسی دباو نہیں لیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم کو باہر نہ جانے نہ دیا جاتا ہماری تسلی ہوتی۔ کیاہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ ہم اپنی بچیوں کی حفاظت نہیں کرسکتے ۔
عدالت نے ناظم آفتاب عالم کو ملزم کے والد کو باہر سے لانے کا حکم دیا تو ان کا کہنا تھا کہ ملزم کو واپس لانے کےلیے اپنا اثر استعمال کروں گا۔ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ریڈ وارنٹ کے لیے درخواست کر دی یے ۔ وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ عدالتی حکم سے پی ٹی آئی کا نام نکال دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نکال دیں ہم نے پی ٹی آئی کے بارے میں آبزرویشن نہیں دی ۔ سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی ۔
دریں اثنا سپریم کورٹ میں مردان کی اسما قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی ۔ آئی جی کے پی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خیبرپختونخواہ کی فورس کتنی اچھی ہے ۔ کیوں نہ ازخود نوٹس واپس لے لیں ۔ یہ ازخود ہم نے آپ کے لیے نہیں لیا ۔ سیکیورٹی کی فراہمی پولیس کی ذمہ داری ہے ۔ ایک بچی کے ساتھ اتنا بڑا واقعہ ہوگیا کوئی پیش رفت نہیں ۔ یہ نوٹس شہریوں کے لیے لیے جاتے ہیں ۔ عدالت نے کے پی پولیس کو رپورٹ کے لیے دو ہفتوں کی مہلت دے دی ۔ سماعت 21 فروری تک ملتوی کر دی گئی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے