راﺅ انوار کا چیف جسٹس کو خط
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ نے نقیب اللہ محسود قتل میں ملوث مفرور پولیس افسر راﺅ انوار کو عدالت میں پیش ہونے کیلئے مہلت دیدی ہے۔عدالت نے ہدایت کی ہے کہ اگر راﺅ انوار سپریم کورٹ پیش ہوتے ہیں تو سندھ اور اسلام آباد کی پولیس مکمل حفاظت فراہم کرے۔ پاکستان 24 کے مطابق راﺅ انوار کی جانب سے عدالت عظمی کے انسانی حقوق سیل کو بھیجا گیا خط بھی سامنے آیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کا اسی وقت جائزہ لیا جائے گا جب راﺅ انوار پیش ہوں گے۔
پاکستان 24 کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ کے سامنے سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ پیش ہوئے اور بتایا کہ گزشتہ سماعت کے حکم کی روشنی میں خفیہ اداروں سے رابطہ کیا اور مشترکہ کمیٹی بنانے کی تجویز دی گئی، ایف آئی اے، آئی بی اور آئی ایس آئی کے حکام کو خطوط لکھے۔ آئی ایس آئی اور آئی بی جواب آئے ہیں، عدالت میں رپورٹ پیش کی ہے۔ سندھ پولیس کے سربراہ نے آئی بی کا جواب پڑھتے ہوئے بتایا کہ محکمے نے واٹس ایپ سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کوشش کی مگر ان کے تکنیکی شعبے کے مطابق اس میں مہارت حاصل نہیں، کوشش کی گئی کہ معلوم کیا جاسکے راﺅ انوار کسی موبائل فون کے ڈیٹا کے ذریعے واٹس ایپ استعمال کرتا ہے یا پھر کسی وائی فائی ڈیوائس سے منسلک ہے مگر کامیابی نہیں ہوئی، آئی بی نے اس کیلئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے رابطہ کیا ہے مگر جواب نہیں ملا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اس کا مطلب ہے کہ ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ ہرمرتبہ وقت دیتے ہیں، بہت مہلت دیدی، اب ہمیں ہی راﺅ انوار کو پکڑنا پڑے گا، ہمیں بتادیجیے، کہاں سے کیسے پکڑنا ہے، میں آپ کے ساتھ چلتاہوں۔چیف جسٹس نے ایک لفافہ سندھ پولیس کے حکام کی طرف عدالتی اسٹاف کے ذریعے بڑھاتے ہوئے کہاکہ مجھے راﺅ انوار کا خط آیا ہے،یہ ٹائپ شدہ ہے اس لیے تحریرکی نشاندہی تو نہیں کی جاسکتی کہ کس کی ہے مگر دستخط دیکھ کر بتائیں کہ کیا راﺅ انوار کے ہیں؟۔ سندھ پولیس کے سربراہ اور دیگر افسران نے کہاکہ یہ دستخط راﺅ انوار کے ہی لگتے ہیں۔ پاکستان 24 کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ خط میں لکھی گئی تمام باتیں سامنے نہیں لائیں گے تاہم راﺅ انوار کہتے ہیں وہ بے گناہ ہیں، راو انوار کہتے ہیں وہ موقع پر موجود نہیں تھے۔چیف جسٹس نے کہاکہ انصاف مظلوم کاحق ہے مگر جس پرالزام ہے اس کو بھی صفائی اور اپنے دفاع کا موقع ملنا چاہیے، راو انوار کہتاہے آزاد جے آئی ٹی بنادیں جس میں آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی افسران شامل ہوں۔چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے پوچھا کہ راو انوار کے خط اور کی گئی استدعا پر کیا کرنا ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟۔ آئی جی نے کہاکہ راو انوار کو صفائی کا موقع ملنا چاہیے، بے شک عدالت جے آئی ٹی بنادے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر حکم دے دیتے ہیں راو انوار سپریم کورٹ آجائے، راو انوار کو گرفتار نہ کیاجائے، راوانوار کے لیے جے آئی ٹی بنادیتے ہیں، راو انوار کو سیکیوٹی فراہم کرنا بھی ضروری ہے، ایسا نہ ہوکہ راﺅ انوار کو راستے میں کچھ ہو جائے، ثبوت ختم نہ ہو جائے، راو انوار کو حفاظتی ضمانت دے دیتے ہیں، جمعہ کے روز راو انوار عدالت میں پیش ہوں، ایم آئی کو جے آئی ٹی میں شامل نہیں کریں گے، راو انوار پولیس سے حفاظتی ضمانت مانگے تو فراہم کریں، جے آئی ٹی میں پولیس افسر بھی شامل کریں گے ۔ ٹیم میں بریگیڈئیر کی سطح افسران شامل کریں گے۔
عدالت میں نقیب اللہ محسود کے کزن نے پیش ہو کر کہا کہ ابھی پہلی جے آئی ٹی قائم ہے جس کے سامنے راﺅ انوار پیش نہیں ہوئے، عدالت دوسری جے آئی ٹی کی تشکیل نہ کرے، عدالت میں نقیب کے والد کا خط اس کے کزن نے پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ آئی جی سندھ اب تک راوانوار کو کیوں نہ پکڑ سکے، راوانوار کی عدم گرفتاری کا جواب چاہیے، ہمارے سیکیورٹی ادارے جانتے ہیں راو انوار کدھر ہے، عدالت آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہان کو بلا کر پوچھے ۔ عوام سے راوانوار کی گرفتاری کے لیے مدد مانگی جائے، آئی جی سندھ کے مطابق سیکیورٹی اداروں کی سپورٹ کے باوجود راو انوار کو تلاش نہ کرسکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اداروں پربے یقینی یا مایوسی کا اظہار نہیں ہونا چاہے، نقیب اللہ ہمارا بھی بچہ تھا،راو انوار کا خط میڈیا کو فراہم نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان 24 کے مطابق عدالت نے اپنے حکم میں لکھا کہ راو انوار کو حفاظتی ضمانت فراہم کی جائے، سندھ اور اسلام آباد پولیس راو انوارکو حفاظت فراہم کریں، جے آئی ٹی بھی راو انوار کے خط پر تشکیل دیں گے مگر یہ تمام احکامات راو انوار کی عدالت میں آمد سے مشروط ہوں گے، خط کی تصدیق راو انوار ہی کرسکتے ہیں، عدالت نے کہاکہ اگر یہ خط راو انوار کا ہے تو عدالت انہیں جمعہ کو پیش ہونے کا موقع دیتی ہے۔