لاپتہ افراد کیس: عدالت میں بوڑھے والدین کی دہائی
Reading Time: 7 minutesعدالت عظمی میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے چھ لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کی۔
لاپتہ افراد کمیشن کے سیکرٹری اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ تین ہزار لاپتہ افراد کے کیس نمٹا دیے گئے ہیں۔ پندرہ سو ستتر لاپتہ افراد کے مقدمات زیرالتواء ہیں ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے کمیشن میں پیش ہونا ہے مگر راستے میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ جو لوگ عدالت کو لاپتہ افراد کے لواحقین کی کسمپرسی سے آگاہ کرتے ہیں ان کو اگر کمیشن کی کارروائی تک رسائی نہیں دی جائے گی تو ہم حکم جاری کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم ایسی ریاست میں رہتے ہیں جو اسلامی جمہوریہ کہلاتی ہے، یہ فرض ریاست کا ہے، اوراگر ریاست اپنے فرض کی ادائیگی میں ناکام ہوتی ہے اور اگر کوئی آگے آکر ریاست کو اس کے فرائض یاد دلاتا ہے تو اس کی ہمت افزائی کرنا چاہیے، اس شخص کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہیے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے بتایاکہ لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین کو بتادیں گے ۔ آمنہ مسعود نے کہاکہ کمیشن کے چیئرمین ہوتے ہی نہیں تو کیاکریں،وہ نیب کے چیئرمین بن گئے ہیں، پانچ منٹ کیلئے کمیشن میں آتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ جو کیس میں نے رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے بھیجے تھے واپس کیوں کیے؟۔
کمیشن کے سیکرٹری نے بتایاکہ چیئرمین لاپتہ افراد کمیشن کے دفتر آتے رہتے ہیں، جب نیب میں چھٹی ہوتی ہے تب بھی آتے ہیں۔آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایا کہ جن لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے پیش ہوتی ہوں وہ زیادہ تر پڑھے لکھے نہیں،یہ لوگ اردو بھی نہیں لکھ سکتے، ہم کمیشن کی سہولت کا کام کررہے ہیں، یہ کمیشن برسوں سے کام کر رہا ہے۔
کمیشن کے سیکرٹری نے بتایاکہ ہم ایسا ادارہ ہیں جس کو خفیہ ایجنسیاں بھی جوابدہ ہیں، ہمارے پاس ایسے افراد بھی ہیں جو لاپتہ لوگوں کے خاندان والوں سے پشتو میں بھی گفتگو کرسکتے ہیں۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق آمنہ مسعود نے کہاکہ کمیشن نے جان بوجھ کر ہم پر دروازے بندکیے ہیں، رجسٹرڈ ڈاک سے بھیجے مقدمات واپس کیے۔ سرکاری وکیل نے کہاکہ کمیشن میں کوائف جمع کرانے کیلئے فارم بنایا گیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کو بھرا جائے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ جن مقدمات کی ڈاک وصول نہیں کی گئی، ان کی تفصیلات عدالت کو فراہم کریں۔
اس دوران عدالت میں دولاپتہ بھائیوں عمرحیات اور عمربخت کے والدین روسٹرم پر کھڑے ہوگئے۔ ستر برس سے زائد عمر کے بوڑھے والدین پشتو میں بولتے رہے اور سب خاموش ہوگئے۔ ( پشتو کا اردو ترجمہ پیش ہے)۔
بوڑھی ماں نے کانپتے ہوئے ججوں کو مخاطب کرکے کہاکہ جس رات ہمارے بیٹے کو اٹھایا گیا وہ قیامت کی رات تھی، ہم ناخواندہ پٹھان ہیں، لوگ ہمیں پاگل کہتے ہیں، ہم بے وقوف ہیں، مگر جج صاحب، ہمارے اور بچے نہیں ہیں۔ اللہ کیلئے اگر کچھ کرسکتے ہیں تو کریں، میں عورت ہوں عدالت میں کیسے کچھ پوچھ سکتی ہوں، وہ ارشد پولیس والاجو میرے بیٹے کو لے گیا تھا اس نے کہاتھاکہ اگر اس طرح کھلے آسمان تلے رات گزار سکتے ہو تو گزار دو۔ ہم ٹھنڈ سے مررہے تھے، کچھ لوگوں نے ہمیں اس حالت میں دیکھا تو مدد کی۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ عورت کیا کہہ رہی ہے؟
بوڑھی ماں بولتی رہی، میرے بچے کو لے آئیں، اس کا پتہ لگائیں، وہ بے گناہ اور بے خطا پکڑا گیاہے، ہم اللہ کے عاجز ومسکین لوگ ہیں۔ ہم سے آٹھ لاکھ روپے مانگ رہے تھے کہاں سے لاتے؟۔ اللہ کیلئے کچھ کریں، حیا آتی ہے عورت ہوتے ہوئے اس عدالت میں آنے اور یہاں بولنے سے۔عورت ہوں کسی بات اور چیز سے باخبر نہیں۔
اسی دوران باباجی بولنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی اہلیہ کو ڈانتے ہوئے خاموش کراتے رہے کہ مجھے بولنے دو، بس کرو۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق بابا جی نے کہا کہ آٹھ لوگ پولیس والے نے اٹھائے تھے، افغانوں سے بارہ لاکھ روپے لے کر چھوڑ دیا، صرف میرے بیٹے کو واپس نہیں کیا۔ ہم پر اور ہمارے بیٹے پر رحم کریں۔ یہ بات کرتے ہوئے زاروقطار روتے بوڑھے نے کاپنتے ہاتھوں سے اپنے سر سے ٹوپی اتار دی اور ججوں کے سامنے پھیلائی۔ بوڑھے باپ نے کہا کہ مسلمانی نہیں ہے، اللہ ان کافروں سے ہمارے جان چھڑا دے۔
عدالت میں کئی افراد نے بوڑھی اماں کو بڑی مشکل سے روسٹرم سے ہٹایا اور کرسی پربٹھایا، بوڑھے باباجی کو بھی پیچھے لے آئے، اس کے باوجود ، دونوں بولتے رہے۔ کئی افراد بزرگ شہریوں کو خاموش کرانے کی کوشش کرتے رہے، باباجی نے کہاکہ اس زندگی موت بہترہے۔ ایک بندہ مجھے قتل کردے، سارے تو نہ ماریں۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ملوث پولیس اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، اس کو عدالت نے ریلیف دیا ہے تو ہائیکورٹ میں اپیل زیرالتواء ہے، اس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی اپیل آسکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں کیا کریں؟۔ عدالتیں انتظامی نمائندوں اور لاء افسران پرانحصار کرتی ہیں اور عدالت کو یہی لوگ حقائق بتاتے ہیں جن پر فیصلے کرتے ہیں، اس وقت تک جب تک دوسری طرف سے کوئی ذریعہ اس کی تصدیق یا تردیدنہ کرے کہ جو کچھ لاء افسر کہہ رہا ہے وہ درست نہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم خود کو بے یار و مددگار تصورکرتے ہیں جب فریق کے پاس عدالت کی مدد کیلئے کچھ نہ ہو۔ بوڑھے ماں باپ کیلئے کیا کریں؟۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق آمنہ جنجوعہ نے کہاکہ یہ لوگ سوات سے آتے ہیں، کم ازکم پانچ ہزار کا خرچہ ہے، مانگ تانگ کر یہاں تک پہنچتے ہیں۔ ہم ان کو بہت روکتے ہیں کہ ہرسماعت پر آنے کی ضرورت نہیں مگر یہ میاں بیوی اب اس عمر میں ہیں کہ کسی کی نہیں سنتے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ یہ لوگ اس ضعیفی میں اپنے آپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اس کا ممکنہ حل کیا ہے، ان کو ہرپیشی پر آنے کی ضرورت نہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ اگر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اوراگر نہیں ہے تو حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔عدالت کا طریقہ کار سب کو معلوم ہے، جب ہمارے سامنے کوئی چیز واضح طور پر موجود ہی نہ ہو تو عدالتیں کچھ نہیں کرسکتیں۔
پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق آمنہ مسعود نے ایک اور لاپتہ شخص کے مقدمے کی بات کی تو جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ بہت سے لوگ افغانستان چلے گئے تھے، ایسی صورت میں کہاں سے معلومات آئیں گی۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق آمنہ مسعود نے کہاکہ وہ مسجد کا امام تھا، اگر وہ چلا بھی گیا ہوتا تو ماں باپ سے رابطہ کر سکتا تھا، اس نے ایسا کیوں نہ کیا اور اپنے والدین کو عذاب میں رکھا ہواہے۔ اس شخص کا شدت پسندی یا عسکریت سے کوئی تعلق ہی نہ تھا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملے کا تعلق سیاست سے بھی ہے اور ریاست سے بھی ۔افغان جہاد کیلئے لوگوں کو اکسایا گیا تھا۔
پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ گزشتہ دنوں کسی نے کمنٹ کیا تھا کہ 1979 میں ہمارے پڑوسی ملک میں جو ہوا، امریکا نے جو کچھ کیا، پھر اس کے بعد ہمارے لیے جو کچھ راستے بچے۔ اس نے ہماری معیشت اور معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب کیے، یہ نہیں کہتاکہ حکومت ذمہ دار نہ تھی، ہماری حکومت بھی ذمہ دارتھی ۔ مگر عدالت اس میں کیا کرسکتی ہے۔
آمنہ مسعود نے کہاکہ اس معاملے میں وزیرداخلہ کو آنا چاہیے، اعلی سطح پر معاملے کے حل کیلئے پالیسی دینی چاہیے۔اس دوران ایک لاپتہ تاسف ملک کے سسر نے کہاکہ میری درخواست آج سماعت کیلئے مقرر نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجازافضل نے اسٹاف سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟۔
عدالت میں لاء افسر کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے لاپتہ افراد کی جانب سے معروضات پیش کرنے کی اجازت چاہی تو سرکاری وکیل ساجد الیاس بھٹی نے اعتراض کیاکہ کرنل صاحب، آپ اس عدالت کے وکیل نہیں ہیں، لائسنس نہیں ملا۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق جسٹس اعجازافضل نے سرکاری وکیل کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے انعام الرحیم کو بات کرنے کی اجازت دی تو انہوں نے بتایا کہ جن چار ہزار لاپتہ افراد کے مقدمات نمٹانے کی بات کی گئی ہے ان میں سے کسی ایک کا بھی مکمل ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا کہ ان پر الزامات کیاتھے، کیوں حراست میں لیاگیا، کہاں اورکب سے رکھا گیا۔ان کی حراست کی رپورٹ نہیں دی گئی، اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دو ہفتے بعد خبر آتی ہے کہ اتنے افراد کو فوجی عدالت نے سزائے موت سنادی ہے۔ ان کو سزا بغیر کوئی وکیل کیے دی جاتی ہے۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ایسا نہیں ہے، ان کو وکیل دیاجاتاہے۔آپ آرمی افسر رہے ہیں جانتے ہیں کہ طریقہ کار موجود ہے۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق انعام الرحیم نے کہاکہ ایسا نہیں کیا گیا، کسی ایک سزا پانے والے کو بھی وکیل فراہم نہیں کیاگیا،اگر ایسا ثابت ہواتو وکالت چھوڑ دوں گا ۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ایسے مقدمات کی تفصیل بتادیں تو انعام الرحیم نے کہاکہ سپریم کورٹ میں ایسے مقدمات میں اپیلیں دائرکی جاچکی ہیں۔
آمنہ مسعود نے عدالت کوبتایاکہ سردارصدیق نے گزشتہ سماعت پر اپنے بیٹے سہیل کی گمشدگی کابتایاتھاجس پر اسے درخواست دینے کیلئے کہاگیاتھا، سپریم کورٹ کی وجہ سے پولیس نے اس کا مقدمہ درج کیا اس سے قبل اس کی درخواست وصول نہیں کی جارہی تھی، اب 45دن بعد سہیل واپس آگیاہے، سردار صدیق نے عدالت میں بیان حلفی جمع کرادیاہے اس کا کیس نمٹا دیا جائے۔
جسٹس اعجازافضل نے سرکاری وکیل سے کہا کہ کوئی ٹھوس چیز بتائی جائے، سب سے حیران کن معاملہ یہ ہے کہ ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں کچھ نہیں ہو رہا، کوئی مواد ہمارے سامنے نہیں، دوسرا فریق بھی کوئی چیز فراہم نہیں کر پا رہا۔ آمنہ مسعود نے کہاکہ عمرزادہ اور ضیاء الرحمان کی درخواست پر شروع کیے گئے مقدمات کا ریکارڈ کمیشن سے منگوایا جائے تو بہت سی چیزیں سامنے آجائیں گی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ماتحت عدالتیں موجود ہیں، اپیل کورٹ بھی ہیں، اور جب ہمیں لگے گاکہ کمیشن میں کچھ نہیں ہو رہا تو پھر یہاں دیکھ لیں گے۔
پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق آمنہ مسعود نے کہا کہ سر، میرے شوہر کا بھی کیس ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہمارے علم میں ہے۔ تینوں جج صاحبان اٹھ کر جانے لگے ، ہرکاروں نے کرسیاں کھنچ لیں، پس منظر میں دروازے کھل چکے تھے، بوڑھے والدین پھر سامنے آگئے، باباجی نے کہاکہ یہ عدالت ہے، یہ قرآن شریف ہے، اس پرفیصلہ کرلیں، ہمارے بیٹے کو لے آئیں۔
تینوں جج کچھ دیر کھڑے ہو کر بوڑھے میاں بیوی کو سنتے رہے ۔ بوڑھے میاں بیوی کانپتے ہاتھوں اور لرزتے ہونٹوں سے پشتو میں بولتے رہے۔ اور پھر جج صاحبان پچھلے دروازے سے رخصت ہوگئے۔