عوام اتنے بے وقوف نہیں
Reading Time: 4 minutesمیاں کاشان
میری اس ناقص سی رائے سے بہت سے لوگ اختلاف کریں گے اور وہ اس کا مکمل حق بھی رکھتے ہیں لیکن میں کچھ حقائق عوام کے سامنے رکھتا ہوں، فیصلہ عوام خود کر لیں _ میری صرف یہ گذارش ہے کہ جسے میں کچھ اعدادوشمار اور دلائل کے ساتھ ایک رائے پیش کرنے لگا ہوں تو برائے مہربانی میری تصحیح بھی دلائل سے کیجیے گا نہ کہ تنقید برائے تنقید اور بغض سے ۔شکریہ۔
موجودہ نگران حکومت کے دور میں سرکاری طور پر بجلی کی پیداوار کا جو ڈیٹا جاری کیا گیا ہے، اس کے مطابق بجلی کی اس وقت اوسط پیداوار 18ہزار 9 سو 75 میگاواٹ کے لگ بھگ ہے جبکہ اوسط طلب کا اندازہ تقریبا 24 ہزار میگا واٹ ہے ۔ اس حساب سے شارٹ فال تقریبا 5 ہزار میگا واٹ کا ہے۔ اگر گزشتہ برس اسی دورانیے کی بات کر لی جائے تو بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی شارٹ فال تقریبا اتنا ہی تھا جتنا آج ہے۔
ملک میں تین طرح کے بجلی کے صارفین ہیں ، پہلے گھریلو صارفین یعنی ہم عوام، دوسرے صنعتی صارفین اور تیسرے خواص صارفین ۔ اب ذرا ان کی مزید تقسیم کر لی جائے تو سابقہ حکومت کے بقول گھریلو صارفین کی ایک کیٹیگری وہ ہے جہاں سے واجبات کی وصولیاں تسلی بخش ہیں اور سابقہ حکومت نے ان صارفین پر لوڈ شیڈنگ کا بوجھ کم سے کم لادنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ گھریلو صارفین کی دوسری کیٹیگری میں وہ صارفین شامل ہیں جن کے علاقوں سے واجبات کی وصولی غیر تسلی بخش یا دوسرے لفظوں میں لائن لاسز زیادہ ہیں تو سابقہ حکومت نے ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ زیادہ رکھا ہوا تھا۔ شاید اسی بنیاد پر سندھ اور خیبرپختونخوا کے بھائی اکثر نالاں ہی دکھائی دیے تھے اور بلوچستان بے چارے کا تو کیا ہی کہنا اس پورے صوبے کو تو ویسے ہی مجموعی پیداوار کی صرف پانچ فیصد بجلی دی جاتی تھی۔ اب آتے ہیں صارفین کی دوسری قسم کی جانب، یہ صنعتی صارفین کہلاتے ہیں ۔ سابقہ حکومت کے بقول اس سیکٹر میں زیرو لوڈ شیڈنگ کی جاتی تھی مطلب اس سیکٹر میں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر تھی۔ اور صارفین کی تیسری قسم میں خواص صارفین یعنی دفاعی وعسکری تنصیبات، وہ ادارے جن کے امور میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے خلل پڑ سکتا ہے اور وہ سیکٹر جن کی بجلی بند کرنے کی ہمت کسی بھی ڈسکو (بجلی کی تقسیم کار کمپنی ) میں نہیں ہوتی۔ امید ہے ان خواص صارفین کے بارے میں آپ سب سمجھ ہی گئے ہونگے۔
واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق خواص صارفین کی مجموعی ضرورت اور سپلائی تقریبا 4 ہزار میگا واٹ سے زیادہ نہیں ہے۔
اب آتے ہیں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کی جانب جو گزشتہ پانچ سال سے کم وبیش شدید گرمی ہی کے موسم میں آ رہا ہے۔ ہر رمضان سے قبل گزشتہ حکومت ایک ایڈوائزری جاری کرتی تھی جس کے مطابق خواص صارفین کو ہمیشہ کی طرح لوڈ شیڈنگ سے استثنیٰ دیا جاتا تھا، صنعتی صارفین کو رات کی شفٹ یعنی آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا بتا دیا جاتا تھا اور گھریلو صارفین کیلئے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے سحر و افطار کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا اعلان کیا جاتا تھا۔ جس پہ تقریبا اسی سے نوے فیصد تک عملدرامد بھی کیا جاتا تھا۔ گزشتہ برس بھی تقریبا انہی دنوں میں ماہ مبارک چل رہا تھا اور لوڈ شیڈنگ کی صورتحال قدرے بہتر ہی تھی ۔ اعدادو شمار کے مطابق بجلی کی اوسط پیداوار گزشتہ برس بھی تقریبا 18 ہزار 500 میگا واٹ ہی کے لگ بھگ تھی۔ یہ تو تصویر ہو گئی گزشتہ برسوں کی اب چلتے ہیں رواں ماہ کی جانب تو جناب جیسا کہ پہلے ذکر آیا ہے کہ اس وقت ملک میں بجلی کی اوسط پیداوار 18 ہزار 975 میگا واٹ ہے یعنی تقریبا گزشتہ برس کے برابر ہی کہہ لیں ۔ لوڈ شیڈنگ سے متعلق ایک ایڈوائزری رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے اس سال بھی جاری ہوئی تھی جو بالکل نقل بمطابق ماضی ہی تھی، خواص صارفین کو لوڈ شیدنگ سے استثنیٰ ہی ہے لیکن ان کی طلب اور ضرورت میں کوئی خاطر خواہ اضافہ بھی نہیں ہوا ہے۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں بجلی نہ آنے کا شور بھی گزشتہ برس جیسا ہی ہے ، بلوچستان کو بھی ایک بھی واٹ اضافی بجلی نہیں دی گئی تو جناب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جناب موسم گزششتہ برس جیسا، بجلی کی پیداوار سرکاری اعداوشمار کے مطابق گزشتہ برس جتنی ، دوسرے صوبوں لوڈ ہوبہو گزشتہ برس جتنی، خواص صارفین اور صنعتی صارفین کیلیے وہی گزشتہ برس جیسی ایڈوائزری، تو جناب ایسا کیا مختلف ہو گیا ہے کہ پنجاب میں خصوصا سحرو افظار کے اوقات میں خصوصا ستر سے اسی فیصد علاقوں میں لوڈ شیڈنگ ایک معمول بن گیا ہے۔ دن بھر میں شہری علاقوں میں 12 سے 14 گھنٹے کی جبکہ دیہی علاقوں میں 14 سے 16 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے؟؟
کیا ن لیگ حکومت کسی قسم کی مصنوععی بجلی پیدا کرتی تھی جو صرف پنجاب کے صارفین کو دی جاتی تھی لیکن اس کو نیشنل گرڈ کی مجموعی پیداوار میں نہیں دکھایا جاتا تھا؟؟ اپوزیشن کے رہنماؤں کے مطابق دوسرے صوبوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ زیادہ تھا ۔ وہ بالکل درست فرماتے تھے اور سابقہ حکومت بھی اس کے جواب میں ایک توجیح پیش کرتی تھی وہ بھی یقینا قابل فہم تھی۔ لیکن کیا اب دوسرے صوبوں میں لوڈ شیڈنگ میں کمی آ گئی ہے؟؟ اس کا جواب ہے نہیں ۔ ( آپ درستگی فرما سکتے ہیں )۔ کیا اس سال بجلی کی پیداوار میں یک دم کوئی بہت زیادہ کمی واقع ہو گئی ہے؟؟ جواب ہے نہیں۔ تو حضور یکا یک ملک بھر میں عموما اور پنجاب بھر میں خصوصا لوڈ شیڈنگ کا دورانہ یک لخت 12 سے 14 گھنٹے تک کیسے پہنچ گیا؟؟ جناب بجلی کی مصنوعی پیداوار تو شاید ممکن نہیں ہے لیکن بجلی کی مصنوعی قلت اور لوڈ شیڈنگ یقینا ممکن ہے۔ اوراگر ایسا ہے تو کیوں ہے؟؟؟ اس پہ محض اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ سجنوں ایسا نہ کرو: عوام اتنی بھی بے قوف نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔