پاکستان24 متفرق خبریں

ضمانت نہیں ہو سکتی، ہائیکورٹ

فروری 25, 2019 3 min

ضمانت نہیں ہو سکتی، ہائیکورٹ

Reading Time: 3 minutes

اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر نوازشریف کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی ہے ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد ہائیکورٹ نیب کے مقدمات میں سزا یافتہ افراد کو ضمانت نہیں دے سکتی ۔

عدالتی فیصلے کے مطابق انتہائی غیر معمولی حالات میں ہی ضمانت دی جا سکتی ہے اور نواز شریف کے مقدمے میں ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے ۔ ان کے لیے طبی سہولیات جیل انتظامیہ فراہم کر رہی ہے

العزیزیہ سٹیل مل ریفرینس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے دائر کی گئی ضمانت کی درخواست جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے مسترد کی۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایسے مخصوص حالات ثابت نہیں ہوئے جس کی وجہ سے سات سال کی سزا پانے والے نواز شریف کو ضمانت دی جا سکے ۔

عدالت کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو علاج کی سہولت دی جا رہی ہے اور انہیں ایسی کوئی بیماری لاحق نہیں ہے جس کا علاج نہ ہو رہا ہو ۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت عظمی کے حالیہ فیصلوں کو سامنے رکھتے ہوئے نواز شریف کو ضمانت پر رہائی نہیں دی جا سکتی۔ ان مقدمات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن اور میاں نذیر اختر کے مقدمات قابل ذکر ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایک مقدمے کے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر کسی مجرم کو جیل میں یا ہستپال میں طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہوں تو ایسے شحص کو ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ صوبہ پنجاب کے محکمۂ داخلہ کے ذمہ داران اور دیگر متعلقہ حکام نے عدالت کو بتایا ہے کہ نواز شریف کو ہسپتال میں تمام ممکنہ طبی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سزا یافتہ نواز شریف کے لیے ایسے غیر معمولی حالات نہیں کہ اُنھیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔

خیال رہے کہ العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں احتساب عدالت کی طرف سے نواز شریف کو ملنے والی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت نو اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست مسترد ہونے کے بعد اب اس فیصلے کے خلاف ملک کی عدالتِ عظمیٰ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے دلائل سننے کے بعد 20 فروری کو اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ احتساب عدالت نے 24 دسمبر کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید اور تقریباً پونے چار ارب روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

عدالت نے نواز شریف کو دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل واجہ حارث نے کہا تھا کہ نواز شریف کی تمام طبی رپورٹس سے واضح ہے کہ انھیں انتہائی نگہداشت میں رکھنے کی ضروت ہے ۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ نواز شریف کی بیماری ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس پر حکومت اور نیب کو کھیل نہیں کھیلنا چاہیئے ۔

نواز شریف کی صحت کے بارے میں تشکیل دیے جانے والے میڈیکل بورڈ نے اپنی سفارشات محکمۂ داخلہ کو بجھوا دی ہیں جس میں سابق وزیراعظم کی انجیو گرافی کروانے کی تجویز دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہی نواز شریف کی اپیل پر ایون فیلڈ ریفرینس میں انھیں دی جانے والی سزا کی معطلی کا فیصلہ دیا تھا جس کے خلاف سپریم کورٹ میں نیب کی جانب سے کی جانے والی اپیل مسترد کر دی گئی تھی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے