انڈین مواد نشر کرنے پر پابندی
Reading Time: 2 minutesرضوان عارف
پاکستان کی سپریم کورٹ نے نجی ٹی وی چینلز پر انڈیا کے پروگرام اور گانے چلانے پر پابندی عائد کر دی ہے ۔ جسٹس گلزار احمد نے کیبل آپریٹرز سے پوچھا کہ کیا اب بھی آپ انڈیا کا مواد دکھانا چاہتے ہیں؟۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نجی چینلز پر بھارتی مواد نشر کرنے کے خلاف پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی درخواست کی سماعت کی ۔
پیمرا نے انڈین پروگرام نشر کرنے کی اجازت دینے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے ۔
عدالت کو پیمرا کے وکیل مدثر خالد عباسی نے بتایا کہ سنہ 2006 میں اتھارٹی نے نجی چینلز پر 6 فیصد انڈین مواد سمیت کل 10 فیصد غیر ملکی مواد نشر کرنے کی پالیسی متعارف کرائی تاہم یہ انڈین چینلز پر پاکستانی مواد نشر کرنے سے مشروط تھی ۔
پیمرا کے وکیل نے کہا کہ سنہ 2016 میں انڈیا کے چینلز نے پاکستانی مواد نشر کرنے پر پابندی لگائی تو اتھارٹی نے سرکلر جاری کر کے پاکستان میں بھی انڈین مواد پر پابندی عائد کی ۔
عدالت کو بتایا گیا کہ پیمرا کے پابندی کے سرکلر کو لیو کمیونیکشن پرائیویٹ لمیٹڈ نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جس پر عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ دیا ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہائی کورٹ کو پیمرا کے اختیارات میں مداخلت کا اختیار نہیں تھا ۔
سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف پیمرا کی اپیل سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کی دراخواست نمٹا دی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ نجی چینلز پر صرف پاکستانی مواد دکھایا جائے ۔
عدالت عظمی نے بھارتی مواد نشر کرنے کی اجازت کا ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ۔
بنچ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے کیبل آپریٹرز کے وکیل سے کہا کہ کیا اب بھی آپ لوگ بھارتی مواد دیکھنا چاہتے ہیں؟ ۔
خیال رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے سنہ 2017 میں پاکستان کے نجی چینلز پر انڈیا کے پروگرام اور فلمیں نشر کرنے کی اجازت دی تھی ۔
یہ اجازت فلمیزیا چینل کی مالک کمپنی لیو کمیونیکیشن کی درخواست پر دی گئی تھی ۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جنوری سنہ ۲۰۱۹ میں اس کیس کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ انڈیا ہمارا پانی روک رہا ہے تو اس کی فلمیں چلانے کی اجازت کیوں دیں؟۔
اس وقت عدالت کو پیمرا نے آگاہ کیا تھا کہ درخواست گزار فلمیزیا چینل پر ۷۵ فیصد انڈین مواد نشر ہوتا ہے جبکہ چینل کے وکیل نے بتایا تھا کہ وہ نیوز چینل نہیں اس لیے پروپیگنڈے کے لیے استعمال نہیں ہوتے ۔