ایف 16 معاہدے کی تفصیلات منظر عام پر
Reading Time: 2 minutesعفت حسن رضوی
امریکہ اور پاکستان کے درمیان نوے کی دہائی میں جاری سرد مہری نائن الیون کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد پگھلی، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اسٹیٹ اتحادی بنا۔ اس جنگ کے عوض امریکہ نے اتحادی تعاون فنڈز کے تحت پاکستان کو دفاعی سامان دینے کے معاہدے کیے، انہی معاہدوں کے مطابق چار قسطوں میں پاکستان کو چالیس جدید ایف سولہ طیارے دیے گئے۔
فارن ملٹری فنانسنگ کو بش انتظامیہ نے کانگریس کے سامنے امریکی سالمیت کا معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اپنے اتحادی کی جائز دفاعی ضروریات کو پورا کرنے سے امریکہ کے اپنے مفادات وابستہ ہیں کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان ہمارا قریبی اتحادی ہے۔؛
دراصل کانگریس ارکان کو اصل تشویش ایف سولہ طیاروں کے ملنے بعد جنوبی ایشیاء میں پاکستان کی فضائی فوجی سبقت کی تھی، انڈیا اس ضمن اپنی لابنگ کررہا تھا، دوہزار چھ میں جب ایف سولہ طیاروں کی ڈیل آخری مراحل میں تھی اس وقت بھی امریکی کانگریس میں اس ڈیل کی مخالفت میں بل لائے گئے جن میں مطالبہ کیا گیا کہ یہ جدید جنگی طیارے ہیں، طالبان کے پاس صرف زمینی قوت ہے،پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینے کا مقصد دہشتگردی کے خلاف جنگ سے زیادہ بھارت کے خلاف استعمال ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔ تاہم پاکستان امریکہ کا فوجی اتحادی تھا اس لیے ایف سولہ طیاروں کی ڈیل ڈی ریل نہ ہوئی۔
دوہزار چھ میں ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کے معاہدے پر دستخط ہوئے، امریکی کانگریس لائبریری کی ریسرچ سروس نے دوہزار سات میں ایک رپورٹ تیار کی جس میں کہا گیا کہ پاک امریکہ دفاعی سامان کی یہ ڈیل امریکی قانون “ آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ” کے تحت کی گئی ہے۔ اس ایکٹ کا اطلاق ڈیل کے فریقین یعنی ایف سولہ بنانے والی کمپنی، پاکستان اور امریکی حکومت پر ہوگا۔اس ایکٹ کے شق چار میں دو شرائط اہم ہیں:
۱- امریکی دفاعی سامان اندرونی سیکورٹی معاملات میں استعمال ہوگا۔
۲- خریدنے والا ملک اپنے دفاع کی خاطر استعمال کرےگا۔
آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ کے شق ٹو بی اور فورٹی ٹو ای کے تحت کوئی بھی دفاعی معاہدہ معطل کیا جاسکتا ہے اگر دفاعی سامان خریدنے والا فریق شرائط کی خلاف ورزی کرے۔معاہدہ معطل کرنے کا اختیار امریکی صدر کی ایماء پر امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کو حاصل ہے۔
پاکستان کے معاملے میں ایف سولہ کا معاہدہ حالیہ دنوں میں ہونے والی سرحدی کشیدگی کے باعث اہم حیثیت اختیار کرگیا ہے، بھارت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے ایف سولہ طیارہ جارحیت کے لیے استعمال کیا، جبکہ پاکستان کا جواب ہے کہ اس نے یہ امریکی ساختہ طیارہ اس آپریشن میں سرے سے استعمال ہی نہیں کیا ۔
امریکہ کہتا ہے ہم اس کی جانچ کریں گے۔ نظیر موجود ہے کہ امریکی جنگی طیارے کو 1985 میں اسرائیل نے تیونس میں موجود فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ہیڈ کوارٹر پر حملے میں استعمال کیا، جس پر امریکہ نے عالمی دباو پر پہلے خوب واویلا مچایا مگر پھر کہہ دیا گیا کہ یہ اسرائیل کا دفاعی حق ہے، دیکھتے ہیں امریکہ پاکستان کے کیس میں کیا کرتا ہے۔