پاکستان پاکستان24

عدالت نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی

دسمبر 17, 2019 5 min

عدالت نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی

Reading Time: 5 minutes

خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنا دی۔ تین میں سے دو ججوں نے فیصلہ دیا۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ مشرف پر آئین سے سنگین غداری ثابت ہو چکی۔

اس سے قبل کیس کی سماعت میں حکومت نے تین نئی درخواست دائر کر دیں، شکایت میں ترمیم کی استدعا کرتے کوئے مقدمہ ملتوی کرنے کے لیے کہا ہے۔

جسٹس وقاراحمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی عدالت نے سماعت کی۔

جہانزیب عباسی

سابق وزیراعظم نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سنہ 2013 میں مقدمہ درج کرایا تھا۔

منگل کو وکیل استغاثہ علی ضیاء نے دلائل میں کہا کہ ہم نے آج تین درخواستیں جمع کرائی ہیں، ایک درخواست چارج شیٹ کی ترمیم کا ہے۔

استغاثہ کے مطابق ملزم نے 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کیا۔

جسٹس نذر اکبر نے سرکاری وکیل سے کہا کہ آپ جو پڑھ رہےہیں وہ دفاع کی درخواست ہے۔ اس درخواست پر فیصلہ آچکا ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ اس چارج شیٹ کو کیوں ترمیم کرنا چاہتےہیں؟ آپ نئی شکایت کیوں نہیں دائر کرتےان لوگوں کے خلاف جن پر مددگار ہونے کا الزام ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ کیس میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔

سرکاری استغاثہ نے کہا کہ نئی شکایت دائر کرنے سے ٹرائل میں تاخیر ہو سکتی ہے جب کہ چارج شیٹ میں ترمیم سے ٹرائل میں تاخیر نہیں ہوگی، اگر پہلے مرکزی ملزم کو ٹرائل مکمل ہو جاتا ہے تو جو مددگارتھے ان کا کیا ہوگا۔

جسٹس شاہد کریم نے کہاکہ جرم میں سہولت کاروں کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے، اس معاملے میں تمام چیزوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ اپ کو علم ہے کہ شہادت ہوچکی ہے ان سہولت کاروں کے خلاف کیا ثبوت ہیں۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہےکہ کسی وقت بھی شکایت میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔

عدالت نے پوچھا کہ جن کو آپ شامل جرم کرنا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا تحقیقات ہوئیں۔

درخواست کے مطابق حکومت نے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کے لیے کہا ہے۔ حکومت نے شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آگئیں۔

جسٹس نذر اکبر نے پوچھا کہ جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ گزر چکا ہے۔ کیا شریک ملزمان کیخلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟۔

پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحیقیقات ہو سکتی ہیں۔ ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے مشرف کو ایمرجنسی لگانے کا کہا۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ مشرف کی درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں جس پر فیصلہ بھی ہو چکا۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ مشرف کے شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی۔

عدالت نے قرار دیا کہ ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کیلئے دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانون کے مطابق فرد جرم میں ترمیم فیصلے سے پہلے کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں۔ کیا حکومت مشرف ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟ تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈوز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر فرد جرم میں ترمیم نہیں ہو سکتی۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ چارج شیٹ میں ترمیم کے لیے کوئی باضابطہ درخواست ہی نہیں ملی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نئی درخواست نہیں آسکتی۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ جو درخواست باضابطہ دائر ہی نہیں ہوئی اس پر دلائل نہیں سنیں گے۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت سے معذرت خواہ ہوں۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا۔

عدالت نے پوچھا کہ سیکرٹری داخلہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کیسے چارج شیٹ ترمیم کر سکتے ہیں؟ وفاقی حکومت اور کابینہ کی منظوری کہاں ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ سابق پراسیکیوٹرز نے عدالت سے حقائق کو چھپایا۔

جسٹس نذر اکبر نے پوچھا کہ سابق پراسیکیوٹرز کیخلاف حکومت نے کیا کارروائی کی؟ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ حکومت کے پاس درخواستیں دائر کرنے کےلیے 15 دن کا وقت تھا۔

وفاقی حکومت سے متعلق سپریم کورٹ مصطفی ایمپیکس کیس میں ہدایات جاری کر چکی۔ سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد سیکرٹری داخلہ نہیں وفاقی کابینہ فیصلے کر سکتی ہے، جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پوچھا کہ کیا آپ مرکزی کیس پر دلائل دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔

سرکاری وکیل علی ضیا باجوہ نے کہا کہ میں دلائل نہیں دینا چاہتا تیاری نہیں۔

عدالت نے ہدایت کی کہ پھر آپ بیٹھ جائیں وکیل صفائی کو بولنے کا موقع دیں۔

وکیل نے کہا کہ میری اور بھی درخواستیں ہیں وہ تو سنیں,اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے سے متعلق بھی درخواست ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ ہمارے سامنے صرف سپریم کورٹ کا حکم ہے اس کے تحت کاروائی چلانی ہے۔

مشرف کے ذاتی وکیل سلمان صفدر روسٹرم پر آئے تو عدالت نے کہا کہ سلمان صفدر آپ کی ضرورت نہیں آپ بیٹھ جائیں۔

سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ آپ نہ استغاثہ کو سن رہے ہیں اورنہ دفاع کو سن رہے ہیں۔ پھر کیسے کیس کو چلائیں گے۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ اگر سپریم کورٹ کے کیس پر نظر ثانی درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔ جسٹس وقار احمد نے کہا کہ عدالتی مفرور کے وکیل کو عدالت میں بولنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں ضد نہ کریں۔ جسٹس وقار احمد نے کہا کہ استغاثہ اپنے حتمی دلائل شروع کرے۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ مشرف کیخلاف تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان کے بیان ریکارڈ نہیں ہوئے، عدالت میں ایک درخواست تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کی طلبی کی بھی ہے۔

پراسکیوٹر نے کہا کہ ایسے ٹرائل پر دلائل کیسے دوں جو آگے چل کر ختم ہوجائے۔ پراسکیوٹر علی ضیاء باجوہ نے استدعا کی کہ عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے، ملزم کا 342 کا بیان بھی ریکارڈ نہیں ہو سکا۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ بھی آپ وہ بات کر رہا ہے جو ملزم کے دلائل ہونے چاہئیں۔ جسٹس وقار نے کہا کہ آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹرم سے ہٹ جائیں۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے، سلمان صفدر صرف رضا بشیر کی معاونت کر سکتے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔

مشرف کو فراہم کیے گئے سرکاری وکیل رضا بشیر نے کہا کہ پرویز مشرف غداری کیس میں 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔

رضا بشیر کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے۔ مشرف چھ مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے۔

وکیل نے کہا کہنمشرف کو دفاع کا حق ملنا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ استغاثہ اور آپ دونوں ہی مشرف کا دفاع کر رہے ہیں۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ عدالت نے کہا تھا مشرف کو جب چاہیں پیش کر دیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ پیش ہو سکیں۔ دفعہ 342 کے بیان کے بغیر مشرف کا دفاع کیسے کروں؟۔

عدالت کے سربراہ نے کہا کہ آپ دفاع نہیں کر سکتے اس کا مطلب ہے آپکے دلائل مکمل ہوگئے۔ وکیل نے کہا کہ عدالت پندرہ سے بیس دن کا وقت دے مشرف بیان ریکارڈ کرائیں گے۔

عدالت کے سربراہ نے کہا کہ ملزم کے بیان کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔

پرویز مشرف سنگین کیس کی آج کے دن کی کارروائی مکمل کر کے ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر چیمبر میں چلے گئے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے