سرمایہ کار کی عزت کیے بغیر معاشی سرگرمی ممکن نہیں
Reading Time: 2 minutesمقتدر حلقوں نے جب شہباز شریف کے دور میں احد چیمہ اور فواد حسن فواد کو نیب کے ہاتھوں گرفتار کروایا تھا تو اس کا مقصد بیورکریسی کو یہ پیغام دینا تھا کہ مستقبل میں نون لیگ کا کوئی کردار نہ ہوگا اور وہ اپنا قبلہ بدل لیں،سیانے اس وقت بھی بتا رہے تھے کہ یہ بدترین حماقت ہے کیونکہ اگر آپ اتنے بڑے بیوروکریٹس کو تحقیقات کے لئے گرفتار کرتے ہیں اور بعد ازاں ان کی ہتھکڑی میں لگی تصویر شائع کراتے ہیں تو مقصد واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کا مقصد ان کی توہین ہے،کسی عقلمند نے یہ کام کرنا ہوتا تو وہ پہلے تحقیقات کرتا اور پورے ثبوت کے ساتھ گرفتار کرکے اگلے دن ہی ریفرنس فائل کر کے کسٹڈی پولیس کو دے دیتا لیکن چرچل کے بقول جنگ ایک نازک معاملہ ہوتا ہے اس لئے ان لوگوں لے سپرد نہیں کیا جاسکتا جو زیادہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوں۔
اس عمل کا نتیجہ کیا نکلا یہ جاننا بہت مشکل نہیں ہے، پوری بیوروکریسی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے، فواد حسن فواد کی ضمانت ہوگئی کیونکہ آشیانہ کیس ایک بودا کیس تھا لیکن فواد جس سے بھی ملا ہوگا اسے کہا ہوگا کہ کوئی فائدہ نہیں محنت کا، یہ کسی بھی وقت ذلیل کر سکتے ہیں۔ احد چیمہ پر آمدن سے زائد اثاثوں کا موہوم کیس بنا لیکن تاثر یہی گیا کہ کرپشن کا ایک بھی گواہ یا ٹھوس ثبوت نہیں ملا ہے۔
شوگر سیکنڈل یا آئی پی پی سکینڈلز میں اگر کچھ سچ ہے تو یہ ریگولیٹری اتھارٹی کی ناکامی ہے،دنیا بھر کے سرمایہ دار سسٹم کی کمیوں کو استعمال کرکے ہی پیسہ بناتے ہیں لیکن ریگولیٹر کا کام انہیں راہ راست پر رکھنا ہوتا ہے اور وہ اس بات کی تشہہر سے زیادہ اس عمل میں دلچسپی رکھتا ہے کہ معاملات صحیح نہج پر رہیں اور اس معاملے میں پہلا اصول مار نہیں پیار ہوتا ہے،مار کو ایک آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس کی نوبت کم آتی ہے۔
مولانا وحید الدین خان نے ایک مذہبی سیاسی جماعت کے بارے میں لکھا تھا کہ اگر ایک مجمع میں ایک شخص خنجر لے کر گھوم رہا اور لوگوں کو زخمی کر رہا ہے تو اس کو ہینڈل کرنے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ تمام زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا جائے، دوسرا یہ کہ اس خنجر بدست کو پکڑا جائے تاکہ مزید لوگ زخمی نہ ہوں لیکن اس مذہبی سیاسی جماعت نے ایک تیسرا طریقہ وضع کیا ہے کہ اسی وقت ایک عظیم الشان زخمی کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے جس میں زرودار تقاریر کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
صاحبو سرمایہ کار کی عزت کرنا سیکھنا ہوگی۔
آپ میں اور ترقی یافتہ قوموں میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ میاں منشا اگر امریکا میں ہوتا تو اسے ہاورڈ بزنس سکول میں اینٹرپرونیورشپ کے کورسز میں ایک رول ماڈل کے طور پر بلایا جاتا جبکہ یہاں اسے چور کے نام سے بلایا جاتا ہے۔
میرا گمان یہ ہے کہ شوگر سکینڈل اور آئی پی پی سکینڈلز کی رپورٹس کو عام کرنے سے جو نقصان ہوگا وہ سالوں نفع میں نہیں بدل سکے گا۔
بے وقوف بہادر سے عقلمند بزدل اچھا ہوتا ہے۔