میں کہاں جاؤں؟ فروغ نسیم کا ججز سے سوال
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران سرکاری وکیل فروغ نسیم دس ججز کے سامنے سوالات سے پریشان ہو کر کہہ گئے کہ ’میں کہاں جاؤں‘؟۔
بدھ کو دن ساڑھے گیارہ بجے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع کا آغاز ہوا تو وکیل فروغ نسیم نے دلائل جاری رکھے اور ججز نے سوالات کے جواب کی تلاش۔
جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ کے مسلسل سوالات سے پریشان وکیل فروغ نسیم نے جسٹس منصور علی شاہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک بات کہوں؟۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ فروغ نسیم کی کسی بات کا برا نہیں مناتے۔ وکیل نے کہا کہ ’اگر ایک ہی سوال بار بار پوچھا جائے گا تو ان کی توجہ بٹ جائے گی اور وہ اصل دلائل سے ہٹ جاتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ جواب نہیں ملتا اس لیے بار بار پوچھنا پڑتا ہے۔
اس دوران جسٹس یحییٰ آفریدی وکیل فروغ نسیم سے کہتے رہے کہ وہ اپنے طریقے سے دلائل دیں جیسے وہ مناسب سمجھتے ہیں۔ وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ ’میں کہاں جاؤں۔ ابھی دلائل پر توجہ مرکوز کرتا ہوں تو ادھر سے سوال آ جاتا ہے، پھر ادھر سوال ہوتا ہے۔‘
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ’میری اب آپ سے کمٹمنٹ ہے کہ کوئی سوال نہیں پوچھوں گا۔‘
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ’میں بھی اپنے ساتھی جج کے ساتھ ہوں اور کوئی سوال نہیں کروں گا۔‘
اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ سوال پوچھتے رہیں گے کیونکہ انہوں نے اپنے ذہن رائے بنانی ہے اور اس کے جواب چاہئیں۔ ’جج کا مطمئن ہونا ضروری ہے اس لیے سوال پوچھتا رہوں گا۔‘
ایک موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال پوچھا تو ان کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے بھی سوال کیا۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ان کا بھی ایک ضمنی سوال جسٹس منصور علی شاہ کے سوال سے ملتا جلتا مگر کچھ وضاحت طلب ہے۔
وکیل فروغ نسیم نے دلائل جاری رکھتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی سے کہا کہ ’سر میں آپ کا سوال بھول گیا، دوبارہ پوچھ لیں۔‘