پاکستان پاکستان24

پائلٹ نے تین بار یااللہ کہا: انکوائری رپورٹ

جون 24, 2020 3 min

پائلٹ نے تین بار یااللہ کہا: انکوائری رپورٹ

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کی پارلیمنٹ میں کراچی طیارہ حادثے کی ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی ہے جس کے مطابق بد قسمت طیارہ فضائی پرواز کے لیے سو فیصد ٹھیک تھا تاہم پائلٹ کی غلطی کی وجہ سے انجن میں خرابی کے بعد حادثے کا شکار ہوا۔

بدھ کو پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں قومی اسمبلی میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور نے بتایا کہ طیارے میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں تھا۔

’سات مئی کو اس طیارے نے پہلی پرواز کیں۔ پانچ پروازیں لاہور کراچی ، کراچی لاہور کے لیے کیں اور ایک پرواز شارجہ کے لیے تھی۔‘

وفاقی وزیر نے بتایا کہ پائلٹ اور معاون دونوں طبی طور پر صحت مند تھے۔ پائلٹ نے کسی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی۔ رن وے کی جانب آنے سے قبل جہاز کو دوہزار پانچ سو فٹ کی اونچائی پر ہونا چاہیے تھا۔ رن وے سے دس ناٹیکل مائیل پر لینڈنگ گیر کھولے گئے لیکن اس وقت جہاز کی اونچائی سات ہزار پانچ سو فٹ تھی جس پر کنٹرول ٹاور نے پائلٹ کی اس جانب توجہ مبذول کرائی۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق پائلٹ نے کہا کہ وہ بحفاظت لینڈنگ کر لے گا لیکن جہاز کا انجن تین بار رن وے پر رگڑیں کھا گیا اوراس کے بعد پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ اُٹھا لیا۔ اس معاملے پر کوتائی کنٹرول ٹاور کی بھی تھی۔ جہاز نے جب دوبارہ ٹیک آف کیا تو انجن میں خرابی پیدا ہوچکی تھی۔

وفاقی وزیر کے مطابق پائلٹ اور کنٹرول ٹاور نے مروجہ طریقہ کار کو نظرانداز کیا۔ پائلٹ نے جہاز کو آٹو لینڈنگ سے مینول لینڈنگ پر ڈالا۔ پائلٹ نے آخر میں تین بار یااللہ یا اللہ یااللہ کہا۔

غلام سرور نے کہا کہ پائلٹ اور معاون دونوں کورونا پر بات کررہے تھے، دونوں کے سروں پر کورونا سوار تھا۔ دونوں کے خاندان کورونا سے متاثر تھے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ جو دنیا سے چلے گئے ہیں اللہ تعالی اُن کی مغفرت فرمائے۔ لیکن جو ذمہ دار حیات ہیں اُن کے خلاف ضرور کاروائی ہوگی۔ مکمل رپورٹ ایک سال میں آئے گی۔

رپورٹ کے مطابق دونوں پائلٹ فٹ تھے اور مہارت رکھتے تھے۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق فائنل اپروچ پر کسی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی۔ رن ون سے 10 میل کے فاصلے پر جہاز کو دو ہزار 500 کی بلندی پر ہونا چاہیے تھا مگر جہاز 7 ہزار 200 فٹ کی بلندی پر تھا۔ کنٹرولر نے 3 مرتبہ پائلٹ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ آپ کی اونچائی زیادہ ہے لینڈ نہ کریں اور چکر لگا کر آئیں۔ پائلٹ نے ہدایات کو نظر انداز کردیا۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق رن وے سے 10 ناٹیکل میل پر جہاز کے گیئر کھولے گئے، پانچ ناٹیکل پر پہنچے تو پھر اوپر کردیے گئے۔ جہاز جب رن وے پر ٹوٹل لینتھ 11 ہزار اور وہ 15 ہزار تک ٹچ ڈاؤن کرنا چاہیئے مگر وہ لینڈنگ گیئر کے بغیر 45 سو فٹ پر انجن پر ٹچ ڈاؤن کرتا ہے۔ 3 بار جہاز رن وے پر لگتا ہے اور جمپ لیتا ہے اور جہاز تین ہزار سے چار ہزار فٹ پر رگڑے کھاتا رہا جس سے انجن ڈیمج ہوگیا۔

وفاقی وزیر نے ایوان کو بتایا کہ اسی وجہ سے جہاز دوبارہ اٹھایا گیا اس میں کوتاہی دونوں طرف سے تھی جب جہاز کے انجن سے آگ نکلتے دیکھی تو کنٹرول ٹاور کو پائلٹ کو بتانا چاہیئے تھا۔ جہاز جب دوبارہ ٹیک آف ہوا تو دونوں انجن فیل ہوچکے تھے۔ دوبارہ اس نے اپروچ چاہی اسے جس جگہ کی ہدایات کی گئی وہ وہان نہ پہنچا اور سول آبادی پر گھر گیا اور ساری ہلاکتیں جہاز گرنے کے بعد ہوئیں، دو افراد جو بچ گئے ان سے ملاقات بھی کی۔ ایک شخص جو بچا وہ سیٹ بیلٹ کے ساتھ ایک چھت پر گرا اور اس نے کہا میری بات میری ماں سے کرائی جائے۔ اس شخص نے بتایا کہ وہ ماں کی دعاؤں کے سبب بچا ہے۔

پائلٹ اور کنٹرولر دونوں نے مروجہ طریقہ اختیار نہیں کیا اور یہ حادثہ رونما ہوا۔ وائس ریکارڈر سے ساری باتیں خصوصاً آخری آدھے گھنٹے کی پوری بات چیت سنی۔ کاک پٹ میں ساری گفتگو صرف کورونا کے حوالے سے بات چیت کررہے تھے اور ان کا فوکس فلائٹ کی بجائے کورونا پر تھا۔

جب سے کنٹرول ٹاور نے توجہ دلائی تو پائلٹ نے کہا میں مینج کرلوں گا، پھر وہ کورونا پر بات کرنا شروع ہوگئے کیونکہ ان کی فیملیز کورونا سے متاثر تھے۔ وہ آٹو کی بجائے مینوئل پر آئے اور 30 ڈگری پر ڈائی لگائی۔ پائلٹ کی فٹنس، کارکردگی بہت اچھی تھی اس کے گھر بھی گیا ہوں اور تعلق بھی ہے۔ پائلٹ اور کو پائلٹ ضرورت سے زیادہ پر اعتماد تھے جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔

ہوا بازی کے وفاقی وزیر نے بتایا کہ ماضی قریب میں جو چار حادثات ہوئے ، ایک حادثے میں جہاز 2010 میں اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں سے ٹکرایا۔ دوسرا واقعہ بوجا ائر لائن کا حادثہ بھی اسلام آباد کے قریب ہوا۔ تیسرا واقعہ حویلیاں کے قریب اور چوتھا گلگت بلتستان کے قریب ہوا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے