میر شکیل کا نیب کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع
Reading Time: 2 minutesجنگ گروپ اور جیو نیوز کے مالک میر شکیل الرحمان نے وارنٹ گرفتاری کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
رپورٹ: جہانزیب عباسی
سپریم کورٹ میں میر شکیل الرحمان کی طرف سے دائر کردہ درخواست میں نیب و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمان کی عمر 63 سال ہے، 12 مارچ کو چیئرمین نیب کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری کی آڑ میں گرفتار کیا گیا.
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ ساٹھ سالوں سے جنگ گروپ کی آزادانہ صحافت سے سویلین اور فوجی حکومتیں ناخوش رہیں، جب چیئرمین نیب کی ایک وڈیو منظر عام پر آئی تو جیو نیوز نے احتساب کے عمل کی ساکھ کو بچانے کے لیے خبر نشر کی، اس کے بعد جیو نیوز کو بالخصوص شاہزیب خانزادہ کے پروگرام کے سبب نیب کے ذریعے دھمکایا گیا کہ پیمرا پروگرام بند کر دے گا۔
درخواست گزار نے مزید کہا کہ جس کے بعد نیب کے کہنے پر پیمرا نے جیو نیوز کو نوٹسز جاری کر کے جرمانے عائد کرنا شروع کر دیئے، جیو نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ حکومت وقت، پنجاب اور کے پی کی صوبائی حکومتیں اس معاملے پر ناراض ہو گئیں اور مکمل طور پر اشتہار بند کر دیئے،نیب اور حکومت کے گٹھ جوڑ کے باعث کاروباری اعتماد زمین بوس ہو گیا، حکومت کو بعد میں احساس ہوا کہ نیب کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر شہریوں اور کاروباری شخصیات کو ہراساں کرنے سے نقصان ہو رہا ہے.
درخواست میں مزید کہا گیا کہ تاجر برادری اور بیوروکریسی نے معیشت سے متعلق وزیراعظم اور آرمی چیف کو اپنے تحفظات سے متعلق آگاہ کیا، 28 دسمبر 2019 کو حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے تاجر برادری، شہریوں اور بیوروکریسی کے تحفظ فراہم کیا، آرڈیننس کا جاری کرنا اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ نیب بےقابو ہو گیا ہے،نیب 8 اکتوبر 2019 کو جاری کردہ آٹھ ایس او پیز میں کہا کہ تاجر برادری کے خلاف الزامات پر ان سے تحریری جواب مانگا جائے گا، جواب غیر تسلی بخش ہونے کے سبب سوالنامہ بھیجا جائے گا.
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریری جواب اور سوالنامہ کا جواب غیر تسلی بخش ہونے پر علاقائی ڈی جی نیب کاروباری شخصیات کو طلب کر سکے گا، نیب نے 28 فروری کو مذکورہ ایس او پیز پر عمل درآمد کئے بغیر میر شکیل الرحمان کو نوٹس جاری کیا، نیک نیتی اور نیب سے تعاون کرنے کے باوجود میر شکیل الرحمان کو گرفتار کر لیا، میر شکیل الرحمان نہ عوامی عہدہ رکھتے ہیں نہ ہی ان پر کرپشن کا الزام ہے، نیب قانون کا اطلاق ان ہر نہیں ہوتا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ34 سالہ پرانے معاملے کے تناظر میں مبہم اور بے بنیاد الزامات کی بنیاد ہر انکوائری نہیں ہو سکتی، ایل ڈی اے کی شکایت کے بغیر دو افراد کے درمیان ہونے والے معاہدے پر نیب کارروائی نہیں کر سکتا، شکایت کے تصدیقی مرحلے میں درخواست گزار کی گرفتاری بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، درخواست گزار کا مفرور ہونا ریکارڈ سے ثابت نہیں ہوتا، درخواست گزار کا ذاتی حیثیت میں پیش ہونا فرار ہونے کے تاثر کو یکسر زائل کرتا ہے۔
درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ضمانت منسوخی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے، درخواست گزار کی گرفتاری کیلئے جاری کردی وارنٹ گرفتاری غیر قانونی ہے جسے کالعدم قرار دیا جائے، درخواست گزار کو نیب کی حراست میں رکھنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔