نیوی کو راول ڈیم کنارے زمین الاٹ ہوئی ہی نہیں: رپورٹ
Reading Time: 3 minutesمحمد اسد چوہدری
کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے پیر کو پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو راول ڈیم کے قریب غیر قانونی تعمیرات پر ایک اور نوٹس جاری کیا ہے۔
یہ معاملہ گذشتہ جمعے کے روز سےسوشل میڈیا پر زیر بحث ہے جب چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے راول جھیل پر اس کلب کا افتتاح کیا۔
تاہم ، کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کلب کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے اپنے قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اتھارٹی نے اس سے پہلے بھی ستمبر 2019 اور فروری 2020 میں اسی طرح کے دو نوٹسز جاری کیے تھے تاکہ کلب کی انتظامیہ کو غیر قانونی اور غیر مجاز تعمیرات کرنے سے روکا جائے لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔
بلڈنگ کنٹرول سیکشن (بی سی ایس) کی طرف سے 13 جولائی کو جاری کردہ اس تازہ خط میں جواس نمائندہ کے پاس موجود ہے اس میں ایک بار پھر انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ سائٹ پر غیر قانونی اور غیر مجاز تعمیرات بند کردے بصورت دیگر اس ڈھانچے کو مسمار کرکے سی ڈی اے کے ذریعہ ختم کردیا جائے گا۔
سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن (بی سی ایس) کا یہ مینڈ ٹ ہے کہ وہ پورے شہر میں ہر قسم کی تعمیرات کو ریگولرائز کرے یعنی عمارت کے نقشوں کی منظوری ، تکمیل کے سرٹیفکیٹ جاری کرنا وغیرہ۔
تاہم ، پاکستان نیوی سیلنگ کلب کی طرف سے کی جانے والی اصل خلاف ورزیوں جس کے لئے انتظامیہ کو نوٹس دیئے گئے ہیں کے بارے میں جب ڈائریکٹر بی سی ایس محمد فیصل نعیم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ راول جھیل پر پاکستان نیوی کو کوئی باقاعدہ الاٹمنٹ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا ، "ہمارے پاس پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو اس الاٹمنٹ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے جب کہ وہ کسی بھی منظوری کے لئے ہمارے پاس کبھی نہیں آے ہیں ،” انہوں نے مزید کہا: "ہم نے انہیں نوٹس جاری کیا ہے کیونکہ وہ غیر مجاز تعمیرات کر رہے ہیں جو مکمل طور پر ہیں غیر قانونی ہیں .”
دوسری طرف اتھارٹی کے پہلے نوٹس کے جواب میں ڈپٹی چیف آف نیول اسٹاف کے چیئرمین سی ڈی اے کو لکھے گئے خط کے مطابق میں بتایا گیاہے کہ وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر نیوی سیلنگ کلب 1992 میں قائم کیا گیا تھا۔
خط کے ساتھ وزیر اعظم آفس کے تین نوٹیفکیشنز کی کاپیاں بھی منسلک کی گئی ہیں لیکن یہاں یہ واضح کرنا مناسب ہے کہ ان میں سے کوئی بھی لیٹر پاک بحریہ کو زمین کی باضابطہ الاٹمنٹ کی تصدیق نہیں کرتا ہے۔
1991 میں جاری کردہ پہلے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ چیف آف نیول اسٹاف کو پاکستان میں آبی کھیلوں کا سرپرست اعلی مقرر کیا گیا ہے۔ دوسرا خط 1992 میں جاری کیا گیا تھا جس میں وزیراعظم کی طرف سے ملک کے چھ مختلف مقامات پر واٹر اسپورٹس مراکز تیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھیں جن میں دریائے کنہار ، تربیلا لیک ، ایف ۔9 ، راول ڈیم ، دریائے راوی لاہور اور سکھر بیراج شامل تھے۔
دریں اثنا ، 1994 میں جاری کردہ وزارت عظمیٰ کا تیسرا خط نسبتا زیادہ اہم جس میں وزیراعظم نے راول جھیل پر واٹر اسپورٹس سنٹر کی تعمیر کی منظوری دی تھی۔
اس خط میں مزید کہا گیا تھا کہ اس واٹراسپورٹس سینٹر کو پاک بحریہ کے سربراہ ملک میں آبی کھیلوں کے لئے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت سے تعمیر کروائیں گے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ فنانس ڈویژن اس منصوبے کے لیے فنڈز مہیا کرے گا جبکہ کابینہ ڈویژن اس مقصد کے لئے راول جھیل پر اراضی کی فراہمی کی اجازت دے گا۔
تاہم اسٹیٹ ونگ سی ڈی اے کے اندر موجود ذرائع نےبھی تصدیق کی ہے کہ پاکستان نیوی سیلنگ کلب کے نام پر ابھی تک کوئی باضابطہ الاٹمنٹ نہیں ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اگر ہم وزیر اعظم کی ہدایت کو بھی درست سمجھتے بھی ہیں تو اس سے بھی ہمیں اپنےلینڈ ڈسپوزل کے ضوابط کے مطابق سی ڈی اے بورڈ سے منظوری لینا پڑے گی اور اس طرح کی منظوری کم ازکم اس معاملے میں ریکارڈ پر دستیاب نہیں ہے۔
اسٹیٹ ونگ کے ایک سینئر افسر نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیر اعظم نے منظوری دی بھی تھی تو یہ صرف واٹر اسپورٹس سنٹر کے لئے تھا ، نہ کہ ایک مکمل کلب — جس میں ریستوران ، جیم ، قیام کی سہولت موجود تھی ہوتی اور اس کا کمرشل بنیادوں پر استعمال ہوتا۔
دریں اثنا ، ڈپٹی چیف آف نیول اسٹاف کے خط میں خود بھی نئے کلب کی تعمیر کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں اور اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ پہلے سے موجود بلڈنگ کی صرف تازین و آرئش اور مرمت کی جا رہی ہے جس کی فوری ضرورت تھی۔
یہ خبر دی نیشن کے صحافی محمد اسد چوہدری کی شائع شدہ خبر کا ترجمہ ہے۔