انور کیتھران کا قتل اور کچھ مشاہدات
Reading Time: 3 minutesانور کیتھران کا تعلق بلوچستان کے دور افتادہ اور دشوار گزار علاقے بارکھان سے تھا۔ وہ دوسرے مقامی لوگوں کے برعکس تعلیم یافتہ بھی تھا اور غالبًا ھیلتھ اینڈ ایجوکیشن میں کوئی ڈگری بھی لی تھی ۔
سیاسی طور پر وہ میر حاصل بزنجو کی بلوچستان نیشنل پارٹی سے وابستہ تھا لیکن اس کے پاس کوئی تنظیمی عہدہ نہیں تھا۔
سوشل میڈیا پر اسے ایک صحافی بتایا جا رہا ہے لیکن حقیقت بہرحال یہ ہے کہ وہ صحافی نہ تھا کیونکہ کسی اخبار ،چینل یا اہم ویب سائٹ سے اس کی وابستگی نہیں تھی بلکہ مقامی مسائل کی نشاندہی اور سیاسی خیالات کے اظہار کے لئے صرف اپنا فیس بک پیج چلاتا تھا جس کا دائرہ اثر صرف بارکھان کی مقامی سیاست یا ایک صوبائی وزیر عبدالرحمان کیتھران پر الزامات یا ان کی مخالفت تک ہی محدود تھا۔
23جولائی کی شام انور کیتھران نے بارکھان شہر سے گھر کے لئے کچھ سودا سلف خریدا اور اپنے موٹر سائیکل پر اپنے گاؤں بستی نالہ کے لئے روانہ ہوا، جو تقریبًا پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، راستے میں ناہر کوٹ یونین کونسل کے قریب پیچھے سے آنے والے دو موٹر سائیکل سواروں نے اسے اوور ٹیک کیا اور تھوڑا سا آگے جاکر انور کیتھران کا راستہ روکا تو اس نے فورًا اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر دی او اپنی پسٹل نکال دی لیکن اس سے پہلے کہ وہ فائر کرتا مخالف سمت سے فائرنگ میں پہل ہوئی اور انور کیتھران موقع پر ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔
واقعے کے دو گھنٹے بعد انور کیتھران کے بھائی اکبر خان کیتھران نے تھانہ لیوی ناہر کوٹ میں اپنے بھائی کے قتل کا مقدمہ درج کراتے ہوئے صوبائی وزیر عبدالرحمٰن کیتھران اور ان کے دو گارڈز نادر جان اور آدم خان کو نامزد کیا اور بتایا کہ انور کیتھران کو صوبائی وزیر کے اشارے پر قتل کیا گیا ہے کیونکہ انور کیتھران عبدالرحمٰن کیتھران کے کرپشن کو سوشل میڈیا پر سامنے لاتا رہا تھا۔
یہ بات مدنظر رہے کہ سوشل میڈیا پر انور کیتھران کا رویہ بہت جارحانہ تھا اور وہ اکثر مخالفین کے نام لے کر ان پر سنگین بدعنوانیوں کے الزامات لگاتے تھے۔
گویا معاملہ ذاتی نوعیت کا ہے لیکن کیا حرج ہے کہ ذاتی نوعیت کے معاملے کے پس منظر کا کھوج لگایا جائے۔
پہلے انور کیتھران کی بات کرتے ہیں وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا لیکن اس کے نفسیات اور رویے پر تعلیم کی بجائے قبائلی طرز معاشرت نے ذیادہ اثر ڈالا۔
پچھلے سال بلوچستان کے علاقے کان مہتر زئی کے برفانی طوفان سے ایک بلوچ نوجوان نے ڈیڑھ سو افراد کو ریسکیو کیا تو میں نے اس نوجوان کے لئے ایک تعریفی کالم لکھا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔
دوسرے دن ایک انجانے وٹس ایپ نمبر سے میری تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے پیغامات ملنے لگے جسے غیر ضروری سمجھ کر بغیر شکریہ ادا کئے نظر انداز کیا لیکن شام کو اسی نمبر سے فون آ گیا۔
تعارف ہوا تو وہ انور کیتھران تھے خود کو صحافی بتایا اور ضلع بار کھان کا ذکر کیا تو میرے لئے ایک دم اہم ہو گئے کیونکہ بڑے شہروں اور چینلوں سے چمٹے صحافیوں ،ادیبوں اور شاعروں کی نسبت مجھے وہ باصلاحیت لوگ ذیادہ اپیل کرتے ہیں جن کا تعلق دور آفتادہ اور مضافاتی علاقوں سے ہو۔
سو اب مسلسل انور کیتھران کے پیغامات ملتے رہے جن کی تان ہمیشہ میری بے مقصد تعریف اور چند مقامی سیاستدانوں خصوصًا ایک صوبائی وزیر کی کرپشن پر ھی ٹوٹتی۔
جلد ہی یہ بھی پتہ چلا کہ انور کیتھران صحافی نہیں بلکہ صرف فیس بک کی حد تک سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہیں۔
سو میری دلچسپی باقی نہیں رہی اور رابطہ منقطع کر دیا۔
اب آتے ہیں صوبائی وزیر سردارعبدالرحمٰن کیتھران کی طرف۔ سردار صاحب بلوچستان کے انتہائی پسماندہ اور دور آفتادہ ضلع بار کھان کے مقامی سردار ہیں، سو سرشت وہی ہے جو قبیلے (سرداروں اور نوابوں) کا خاصہ ہے یعنی طاقتوروں سے نباہ کر رکھنا اور طاقت ہاتھ میں رکھنا۔ سردار عبدالرحمٰن کیتھران کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کےان فراریوں سے مذاکرات کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جو پہاڑوں پر چلے گئے تھے۔
سردار کیتھران نے بہت سے فراریوں کو سرنڈر کروا کر انہیں پہاڑوں سے نیچے اُتارا اور ان کے گھروں پر پاکستان کے جھنڈے لہرائے۔
یہ کام یقینًا قابل ستائش ہے لیکن سردار صاحب آخر سردار ہی ہیں اس لیے معاوضہ وصول کرنے کا فن خوب آتا ہے تبھی تو وہ پانچ چھ بار مسلسل بلوچستان اسمبلی میں بھی پہنچے اور وزیر بھی بنے۔
اس وقت بھی وہ بلوچستان حکومت میں صوبائی وزیر بہبود آبادی ہیں۔
سو حقائق یہی ہیں کہ انور کیتھران چونکہ تعلیم یافتہ تھے اور کچھ ذیادہ ہی جارحانہ انداز بھی اپنائے ہوئے گھے اور وہ پرانے سیاسی کھلاڑی کو سوشل میڈیا کے ذریعے ”گندہ“ کر رہے تھے اور شاید خود سیاسی میدان میں جگہ بنانا چاہتے تھے جبکہ صدیوں کے تاریک اور بہیمانہ طلسم کے قبیلے والے اپنے نظام کو ہر صورت برقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں بھی عبدالرحمان کیتھران نے اپنے اس کمزور اور نوزائیدہ حریف کا ذکر کیا تھا۔
انور کیتھران کے قتل میں سردار عبدالرحمٰن کیتھران ملوث ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو تفتیش اور انصاف کا نظام کرے گا مگر ایک انسان کا قتل بہرصورت معاشرے کے لیے المیہ ہوتا ہے۔