ہم نے وردی میں ولی بھی دیکھے
Reading Time: 2 minutesپولیس سروس آف پاکستان کے گریڈ 19 کے افسر ہاتھ میں آئی فون فور لیے میری واٹس ایپ کالز اور میسیجز کا بروقت جواب نہ دینے کے گلے کی وجہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے، میں نے اس ناپید آئی فون فور جس کی مارکیٹ قمیت اب صرف ایک ہزار روپے سے زیادہ نہ تھی سے یاری کی وجہ دریافت کر لی، جواب ملا کہ ”یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں شہر اقتدار کا ایس ایس پی آپریشن تھا، مہینے کی آخری تاریخوں میں آئی جی صاحب نے تمام افسران کو واٹس ایپ اکاونٹ بنانے کا حکم دیا تو میرے پاس واٹس ایپ تو کیا نوکیا کا ایسا فون تھا جسے چارجنگ پر لگانے کے لئیے بھی دس منٹ دیوار کیساتھ کھڑا ہونا پڑتا تھا۔“
افسر نے کہا کہ بھری میٹنگ میں انہوں نے آئی جی کو کہا کہ (یکم سے پہلے میرے لیے نیا سمارٹ فون لینا ممکن نہیں)۔ جس فورس کے اہلکار لاکھوں کی گاڑیوں پہ گھومتے ہوں ان کے کمانڈر کے منہ سے ایسے الفاظ نے سب کو ششدر کر دیا، بہرحال دو چار روز بعد تنخواہ ملنے پر اس مرد مجاہد نے یہ فون لیا جسے آج تک سنبھال کے رکھا ہوا ہے۔
اور تو اور ہمارے نظام کے بانجھ پن کا اس سے اندازہ لگائیں کہ جب انہیں سیٹ سے ہٹا کر کھڈے لائن لگایا گیا تو ان کے پاس اپنی ذاتی گاڑی تک نہیں تھی یہ پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارا لینے کے درپے تھے تاہم ایک اور ادارے میں تبادلہ ہونے پر سرکاری گاڑی مل گئی، نہیں تو پولیس سٹیٹ آف پاکستان کے یہ پہلے آفیسر ہوتے جو عہدے سے ہٹنے کے بعد پیدل ہو چکے تھے۔ سب سے بڑا ستم تو یہ ہے کہ اس شخص کی ایمانداری کی مثالیں حاکموں کے ایوانوں سے لے کر پولیس کی بیرکوں تک سبھی دیتے ہیں لیکن ایسے ایماندار کو ہمارا معاشرہ ( نفسیاتی ) کا لقب دیتے ہوئے راستے سے ہٹا دیتا ہے۔
آج کل یہ ایف آئی اے میں ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات ہیں ہر حال میں رب کی رضا پر سر تسلیم خم کرنے والے اس مجاہد کا نام عصمت اللہ جونیجو ہے۔ کچھ یاد آیا؟ یہ نام آپ کے ذہن کے پردوں پر ضرور دستک دے رہا ہو گا۔
میں آپ کی مشکل آسان کر دیتا ہوں۔ یہ وہی عصمت اللہ جونیجو ہیں جن پر 2014 کے دھرنے میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بدترین تشدد کیا اور آج کے وزیراعظم عمران خان اسی کیس میں چار سال تک اشتہاری ملزم رہے، بعد میں عدالت نے انہیں اس کیس میں بری کیا لیکن عصمت اللہ جونیجو کو یہ نظام آج تک بری نہ کر سکا، ان کی پوسٹنگ چن کر ایسی جگہ کی جاتی ہے جہاں وہ نظروں سے اوجھل رہیں ، نہ کسی کیمرے کی آنکھ، نہ ہی کسی لیڈر کی نظر میں آئیں ۔ انہیں چھپا کر رکھا جاتا ہے لیکن اس اللہ کے ولی کے چہرے پر نہ کوئی خوف نہ تشویش، ہر ایک ادا مظہر تسلیم و رضا ہے۔
جس معاشرے میں انصاف ناپید ہو، قانون طاقت ور کے گھر کی رکھیل ہو وہاں ایسے چند ولی اللہ ضرور پیدا ہوتے ہیں اب ان کو کون کتنی اہمیت دیتا ہے، یہ اس کی یہ ہمت کی بات ہے۔
آج پولیس کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ہم ایسے ایماندار افسران کو بھی خراج تحسین پیش کریں تو زندہ معاشرے کی جانب پیش رفت کر پائیں گے۔
محکمہ پولیس اور اس کے کمانڈرز کو ایسے دیانتدار افسران کو ضائع کرنے کے بجائے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔