کشمیر میں چوراہوں سے اسمبلی ہال تک ہر ایک کنفیوژن کا شکار
Reading Time: 2 minutes
دانش ارشاد
اسلام آباد میں ایک سینیئر صحافی سے اکثر مسئلہ کشمیر پر گپ شپ رہتی ہے. 5 اگست 2019 کے بعد ایک مرتبہ میں نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا تو انہوں نے استفسار کیا کہ اگر ہندوستان کے جوابی ردعمل یا کسی صورتحال کے پیش نظر پاکستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ضم کرتا ہے تو آزاد کشمیر سے کس ردعمل کی توقع ہے؟ اس وقت تو اس سوال کے جواب میں کہا تھا ممکن ہے کوئی بڑا ردعمل دیکھنے کو ملے لیکن آج کی صورتحال دیکھ کر محسوس ہوتا ہے عوامی سطح پر اب مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی سنجیدگی باقی نہیں یا پھر سیاسی جماعتوں پر اعتماد نہیں رہا.
بدھ پانچ اگست کو جب آزاد ریاست جموں و کشمیر میں یوم استحصال منایا گیا تو آزاد ریاست کی سیاسی جماعتوں نے ایک سال قبل کے بھارتی اقدام کی مذمت کی لیکن اس میں عوامی دلچسپی نہ ہونے کے برابر محسوس ہوئی. جہاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہندوستانی اقدام کی مذمت ہوئی وہیں کنفیوژن کا شکار عوام اور حکمران سبھی تقسیم کا شکار نظر آئے.
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی مسئلے پر سب کا ایک موقف ہو لیکن ہر جگہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد دیکھنے کو ملی اور عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی.
دن راولاکوٹ میں گزرا جسے آزاد ریاست میں سیاسی آگاہی میں سب سے آگے سمجھا جاتا ہے. جہاں عوامی مسئلوں پر پورا شہر بند ہو جایا کرتا تھا لیکن آج کے دن میں ایک ہی مسئلے پر گیارہ مختلف احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے دیکھنے کو ملے. سوائے ایک دو ریلیوں کے کسی بھی ریلی میں شرکاء کی تعداد سو سے زیادہ نہ تھی اور ہر جماعت نے اپنے ہی نظریات کا پرچار کیا.
جماعت اسلامی کے ایک فرد کی تقریر میں حق خود ارادیت کی بات سننے کو ملی باقی ہر جگہ الحاق پاکستان اور خود مختاری کی حمایت ہوتی رہی. سیاسی جماعتوں کے اجتماعات تو کنفیوژن کا شکار تھے ہی لیکن آزاد جموں و کشمیر کی اسمبلی میں بھی یہی صورتحال دیکھنے کو ملی. عتیق خان نے کہا کہ ”ہم مسئلہ کشمیر کو پاکستان کے نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں، ہم کشمیر کے نکتہ نظر سے پاکستان کو نہیں دیکھتے“۔
حسن ابراہیم اپنے بزرگوں کا دفاع کرتے نظر آئے. عبدالرشید ترابی نے جہاد پر زور دیا اور فاروق حیدر تاریخ پر لیکچر دیکر قبائلیوں کی قربانیاں گنواتے رہے. کسی نے بھی پالیسی پر بات نہیں کی مستقبل کے لائحہ عمل کا ذکر نہیں کیا۔
ایسے میں مجھے اسلام آباد کے اس صحافی کا جواب مل گیا. منقسم ریاست کی طرح عوام بھی منقسم ہیں اور دھڑوں میں بٹ چکے ہیں. قومی مسئلے پر ایک موقف اپنا کر متحد نہ ہو سکے تو آئندہ بھی ان دھڑوں سے کسی اتحاد کی توقع نہیں کی جا سکتی۔