کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
Reading Time: 3 minutesاگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی پاکستان میں بچے بڑے تمام شہری جشن آزادی کو پرجوش طریقے سے منانے کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں ۔ ہر طرف لہراتےسبز ہلالی پرچم گلی کوچوں کی رونقیں بڑھا دیتے ہیں ۔ کہیں تحریک آزادی میں اپنا بھرپور کردارادا کرنے والےکارکنان کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور کہیں قومی ترانے اور نغموں سے خون گرمایا جاتا ہے۔
رواں سال بھی نیوز روم میں بیٹھے ان ہی تیاریوں کے حوالے سے جب خبریں ملنا شروع ہوئیں توگزشتہ برس کا قصہ یاد آ گیا جب میں 14 اگست کو ڈیوٹی کر کے آفس سے گھر کے لئے نکلی ، شام کے وقت سڑکوں پر ہر طرف رونق تھی، چھوٹے بڑے سبھی سفید اور سبزرنگ میں ملبوس سرکاری چھٹی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں وطن سے محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک گاڑی میں موجود چھوٹے بچوں کو گاڑی کے سن روف سے نکل کر پرچم لہراتے دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی کہ کچھ نوجوان موٹر سائیکلوں پر سوار دکھائی دیئے جو پرچم والی شرٹس پہنے وطن عزیز کی محبت میں سرشار تھے مگرآزادی کو اتنے بھرپور طریقے سے منانے والے یہ نوجوان اصل میں آزادی کے مطلب سے ناواقف ہی نظر آئے جب اگلی ہی ایک موٹر سائیکل پر بیٹھی ایک خاتون کو اپنا سر نیچے جھکائے چادر سے اپنا منہ لپیٹتے دیکھا جس کو آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے یہ نوجوان اپنی سیلفی ویڈیومیں کیپچرکرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہلڑ بازی کر رہے تھے۔
سالوں پہلے آزاد ہونے والے یہ لوگ اب تک اپنی منفی سوچ کے پنجرے میں ہی قید دکھائی دئیے۔ ہمارا ملک آزاد ہونے کے بعد بھی ایسے لوگوں کی قیدمیں ہے جن کی عورتیں ا پنے مردوں کے ساتھ ہو کر بھی محفوظ نہیں ، اس نظر سے ، اس سوچ سے جو صرف تعلیم سے، شعور سے بدل سکتی ہے ۔ 70 برس سے زائد گئے لیکن ہم اپنی سوچ کی ترقی کو زیر غور لائیں تو کچھوے کی چال ہی نظر آتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ تمہاری اصل ہستی تمہاری سوچ ہے باقی تو خالی ہڈیاں اور گوشت ہے۔
کہنے کو ہم نے نصف صدی سے زیادہ عرصے میں ترقی کی کئی منازل طے کر لی ہیں مگر اس طویل سفر کے بعد بھی ہم اپنی سوچ کو قدیمی روایات کی بوسیدہ دیواروں سے آزاد کروانے میں ناکام ہی نظر آتے ہیں۔ ہماری سوچ کی ترقی ایسی گھڑی کی مانند ہو گئی ہے جس کی سوئیوں کے ساتھ کئی من بھاری پتھر باندھ دیا جائے اوروقت بدلنے میں کئی سال بیت جائیں۔ ہم دوسروں سے اپنے خود ساختہ معیار اور اصول و ضوابط کی پیروی چاہتے ہیں- آج بھی ہمارے ملک میں کئی قیمتی جانیں مذہبی اور نظریاتی اختلافات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔
11 اگست 1947ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے صدارتی خطاب میں بانی پاکستان نے جو جملے کہے انہیں کیسے بھولا جا سکتا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں: آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کےلیے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اورریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔
جناح کی اس تقریر سے یہ تو واضح ہو گیا کہ الگ ریاست بنانے کے پیچھے ان کا عزم تھا حقیقی آزادی، جس میں پاکستانی ایک آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں اقلیتیں تو دور کی بات اپنے ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ فقط نظریاتی اختلافات کی بناء پر بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔
پاک سرزمین کے لئے قائد اعظم کے تصورات جس میں وہ اس دھرتی کو ، بے جا پابندیوں ،حسد ، نفرت اور اختلافات سے پاک رکھنے کی سعی کرتے نظر آئے وہ دھندلا سے گئے ہیں اور پاکستان نفرت اور منفی جذبوں سے پاک ہوتا نظر نہیں آرہا.
ہم ایک ایسی قوم ہیں جو انسانوں کے بنیادی حقوق کیآگہی اور رسائی پر بات کرنے کی بجائے کسی کے لباساس کی ذاتی پسند نا پسند پر تنقید کرنے کو ضروریسمجھتے ہیں اور ہر دوسرے شخص کو اپنی پسند اوراپنی سوچ کی زنجیروں میں قید کر کے رکھنا چاہتے ہیں۔
آزادی کسی ملک، کسی ادارے سے پہلے انفرادی حق ہے،مرد ہو یا عورت ، ہر انسان کو حق ہے وہ اپنے خواب پورے کرے ، اسے جو پسند ہے وہی طرز زندگی اپنائے ۔اس کے لئے اس کو کسی سے ‘نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ’ نہ لینا پڑے ۔ لیکن الیمہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں ذاتی پسند نا پسند پر اختلاف کو زد اور انا کا مسئلہ بنا کر دوسروں کی آزادی چھیننا اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔
خواتین کی اعلیٰ تعلیم اور نوکری پر پابندی کی حمایت کرنےوالے، پیدل چلتی خواتین پر آوازے کسنے والے، دوسروں کے لباس اور طرز زندگی کو اپنی سوچ کے مطابق بدلنے کی خواہش رکھنے والے، سیاسی اور مذہبی اختلافات کی بنیاد پر دوسروں کو گا لیاں دینے، مذہب اور غیرت کے نام پر دوسرں سے جینے کا حق چھیننے والے، دوسروں کی آزادی سلب کر کے، سڑکوں پر یوں آزادی کے نعرے لگاتے، جشن مناتے نظرآتے ہیں تو بڑا ہی عجیب لگتا ہے۔