کالم

پنجابی و بلوچ، جرم و ظلم اور اگر مگر

اگست 18, 2020 5 min

پنجابی و بلوچ، جرم و ظلم اور اگر مگر

Reading Time: 5 minutes

بھائی عابد میر ہمیشہ خاکسار سے شفقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ادب دوستی ان کی پہچان ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی ایک پوسٹ دیکھ کر گمان ہوا، وہ بلوچستان سے ڈومیسائل لینے والے پنجابی کے جرم اور شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابی کو قتل کرنے والے کے ظلم کو ایک سا سمجھتے ہیں۔ دکھ بھری حیرانی ہوئی کہ ظلم کی وکالت کی یہ کون سی منطق ہے۔

پنجابی مزدور کے قتل کے بدلے میں پنجاب میں بلوچ، سندھی، کشمیری، پختون کا قتل ہو تو کیا انصاف پسند ایسے ہی اگر مگر آئیں بائیں شائیں کو جگہ دے گا؟ قطعا نہیں۔ ظلم ظلم ہی کہلائے گا خواہ قوم پرستی کے نام پر ہو یا عظیم تر قومی مفاد کا نام لے کر روا رکھا جائے۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ قوم پرست اکثر ایسی باتیں کرتے پائے گئے ہیں، جیسا کہ:
"ان کا جرم سندھی ہونا تھا، اس لیے اٹھا لیے گئے۔”
"وہ بلوچ تھے اس لیے ان پر ظلم کیا گیا۔”
وہ پختون تھے، تبھی سزا دی گئی۔”

ان جملوں کے ساتھ یہ لاحقے شامل کر کے پڑھیے:
"پنجابی ان مظلوموں کے حق میں آواز نہیں اٹھاتا.”
"پنجاب نے کبھی مزاحمت نہیں کی۔”

ان الزامات کی تصدیق کے لیے ماضی قریب میں جھانکتے ہیں۔ مغربی پاکستان میں ایک سندھی (بھٹو) کی جماعت نے قومی اسمبلی کی جیتی جانے والی اکیاسی نشستوں میں سے ساٹھ باسٹھ نشستیں پنجابیوں کے ووٹ سے حاصل کیں۔ جی ہاں! پنجابیوں نے پیپلز پارٹی کو یہاں اکثریت دلائی۔
اسی سندھی (بھٹو) کی پھانسی کے آس پاس کا احوال دیکھ لیں، سب سے نمایاں رد عمل لاہور (پنجاب) میں رکارڈ ہوا۔ لاڑکانے (سندھ) میں ایک کھمبے کا بلب بھی نہیں ٹوٹا۔
سندھی قائد (بے نظیر بھٹو) مارشل کے دور میں پہلی بار پاکستان آئیں تو لاہور ایئر پورٹ پر پنجابیوں نے ان کا فقید المثال استقبال کیا۔ ایسا استقبال اس سے پہلے، نہ اس کے بعد کسی کا نصیب ہوا۔

جب جب بی بی کی حکومت بر طرف کی گئی تو ان کے ہاتھ میں وہی سندھی کارڈ تھا، جسے دکھا دکھا کے اپنی مظلومیت بیان کرتی رہیں۔ حالاں کہ ان کے حریف نواز شریف (پنجابی) کی حکومت بھی انھی قوتوں کے اشاروں پر لگ بھگ ویسے ہی گرائی گئی، جیسے سندھی (بے نظیر) کی حکومت۔

اس کے مقابلے میں پنجابی (نواز شریف) کے خلاف 99ء کے مارشل لا اور حال ہی میں جو کچھ ہوا، اس پر سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خوا نے کیا رد عمل دیا؟ کچھ ہے تو بتا دیجیے؟

پنجابی عوام نے کشمیری نواز شریف کو بھی پنجابی مان لیا۔ پختون ہونے پر فخر کرنے والے عمران خان کو بھی اپنا کہا۔ سندھی بھٹو کی مثال تو اوپر دے ہی چکے۔

اب آئیے خواص کی طرف۔ ریاستی جبر کے خلاف پنجاب کے صحافی اور دانش وروں کی بے شمار تحریریں ہیں، جس میں کسی دوسرے صوبے کو ذمہ دار نہیں ٹھیرایا گیا۔ حتا کہ نجم سیٹھی جیسے پنجابی ایک بار بلوچ کی طرف سے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے چلے گئے تھے۔ لیکن ادھر دیکھیں تو پنجاب کو دشنام دیے بغیر بات ہی نہیں بنتی۔ غیر پنجابی صحافی اور دانش وروں میں سے کتنے ہیں، جنھوں نے نا معلوم کیے جانے والے پنجابیوں کے حق میں کچھ لکھا ہو؟
کیا پنجابی ایکٹویسٹ نا معلوم نہیں ہوتے؟ ان کے خلاف کون لکھتا ہے؟ بلوچ؟ سندھی؟ پچتون؟ کشمیری؟ بلتی؟ یا پنجابی؟

ایک طرف یہ قوم پرست پنجابی کو غاصب کہتے ہیں، حتا کہ عام پنجابی کو بھی مطعون کرتے ہیں، بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل اور نقل مکانی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف خاص و عام پنجابی سے توقع رکھتے ہیں، وہ ان کے حق میں آواز اٹھائے؟ ہے نا گڑ بڑ گھوٹالا؟

ایک اور قصہ تواتر سے دہرایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ جب جب مارشل لا آیا یا اسٹیبلش منٹ نے دباو ڈالا پنجابی قائدین نے ان کی حمایت کی۔ اس کا احوال بھی ملاحظہ ہو:
کیا فوجی آمر ایوب خان کی کابینہ میں فقط پنجابی وزیر تھے؟ کوئی بلوچ، پختون، مہاجر نہ تھا؟ کیا (سندھی) ذوالفقار علی بھٹو وہاں سے نہیں ابھرے؟ (پنجابی) نواز شریف تو سبھی کو یاد ہیں کہ ضیا الحق کے پنگھوڑے میں جھولتے پروان چڑھے، تو کیا ضیا الحق حکومت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو بھی پنجابی تھے؟ غلام اسحاق خان پنجابی تھے؟ صاحب زادہ یعقوب، آغا شاہی پنجابی تھے؟ جنرل اختر عبد الرحمان، ایوب خان، یحیی خان پنجابی تھے؟

مشرف کے ساتھ پنجاب کے چودھری برادران تھے، تو کیا وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی بھی پنجابی تھے؟ معین الدین حیدر بھی پنجابی تھے، مشرف بھی پنجابی تھے؟ مشرف کی اتحادی ایم کیو ایم بھی پنجابیوں کی جماعت تھی؟ اور تو اور یہ کہیے کیا سینیٹ کے موجودہ چیئر پرسن بھی پنجابی ہیں؟ جنھیں اسٹیبلش منٹ کے دباو پر سینیٹ میں اقلیت کو اکثریت میں بدلنے والے جادو گر، اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے آصف علی زرداری نے ووٹ دلوائے، کیا زرداری بھی پنجابی ہیں؟

اس فوری تحریر میں ابھی جام صادق اور دیگر عظیم سرداروں، وڈیروں کا تو ذکر ہی نہیں، جنھوں نے اقتدار کے حصول کے لیے ہمیشہ بڑی سرکار کی چھڑی شریف کو دیکھا اور پلک جھپکنے میں لگے ان کے بوٹ چمکانے۔

آئیے اب زرا اس سے بھی پیچھے چلے جائیں۔ پنجاب پر چودہ حملے ہوئے تب جا کے انگریز کا یہاں قبضہ ہوا۔ جی ہاں! ایک نہیں، دو نہیں، چار نہیں، چودہ حملے۔
متحدہ ہندستان کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں قبضے کے لیے انگریز کو اتنی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہو، جتنی مزاحمت پنجاب میں ہوئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا کسی معرکے میں اتنا جانی و مالی نقصان نہیں ہوا، جتنی چلیانوالہ (پنجاب) میں پنجابیوں کی مزاحمت کے دوران میں ہزیمت اٹھائی۔ بلوچستان 1834ء میں، سندھ 1843 میں پنجاب 1849 میں سر نگوں ہوا۔ سندھ کے حکمران ‘مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں’ کا نعرہ لگاتے اٹھے اور ایک دن کی جھڑپ میں سندھ گورے سرکار کی راج دھانی میں شامل ہو گیا تھا۔ جی ہاں! ایک جھڑپ۔ محض ایک دن کی جھڑپ!
پنجاب سے پہلے غلامی میں جانے والے، پنجاب کے مقابلے میں عشر عشیر بھی مزاحمت نہ کرنے والے یہ کہیں پنجاب مزاحمت نہیں کرتا تو یہ بد دیانتی نہیں تو لا علمی ضرور ہے۔

یہ سطریں نہ لکھتا پر جب متعصب قوم پرستوں کی پنجاب کے خلاف بک بک پڑھ کے کان پک جاتے ہیں، تو یہ سب یاد دلانا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم اندھے، گونگے، بہرے نہیں، دریاوں کے دل والے ہیں، جو ہنس کے خاموش رہتے ہیں، مبادا آپ کے مزاج پر ناگوار گزرے۔ اس خامشی، اس اخلاص کو آپ ہمارا جرم سمجھ بیٹھے ہیں اور دید لحاظ نظر انداز کرتے، بے اصولی پر اتر آئے ہیں، تو بے ساختہ کہنے کو جی چاہتا ہے، حد ہے اور بے حد ہے۔

یہ قلم برداشتہ جائزہ ہے، ورنہ خیبر تا کراچی، گلگت بلتستان تا گوادر، یہاں کون با صفا ہے، کون ہے جس کے دامن پر داغ نہیں۔ کون انقلابی ہے جس نے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی؟ ایسا ہی کوئی مصلح ہوتا، تو سب سے پہلے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان ایک لکیر کھینچتا۔ مظلوم قوم کو سمت دیتا اور ظالموں کے خلاف جہاد کرتا۔ پنجابی، پختون، کشمیری، بلوچ، بلتی، مہاجر کی تقسیم نہ کھڑی کرتا، جو ظالموں کے حق میں جاتی ہے۔

قوم پرستوں سے فقط اتنا کہنا ہے، کیا بلوچ، کیا سندھی، کیا کشمیری، پنجابی، پختون، سب میں میر جعفر بھی ہیں، اور میر صادق بھی۔ اپنے قائدین کی کم زوریوں کو غیر اقوام کے جرائم مت بتائیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے