کالم

کراچی مشکل میں،تنقید نہیں دعا کی ضرورت

اگست 28, 2020 3 min

کراچی مشکل میں،تنقید نہیں دعا کی ضرورت

Reading Time: 3 minutes

تحریر: عبدالجبار ناصر

کراچی شہر ہم سب کا سائبان ہے، اس کا دکھ سکھ ہم سب کا سانجھا ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے مسلسل بارشیں جاری ہیں اور اعدادو شمار کے مطابق مجموعی طور جمعرات کی رات تک تقریباً پونے 600 ملی میٹر بارش ہوئی اور صرف جمعرات (27 اگست 2020ء)کو صبح 8 بجے سے رات 12 بجے تک 230 ملی میٹر سے زائد بارش ہوچکی ہے۔

ہم اکتوبر 1991 سے کراچی میں ہیں اور اپنی زندگی میں کراچی میں اتنی شدید بارش پہلی بار دیکھی ہے۔ اس وقت کراچی کا عمومی منظر یہ ہے کہ ہر گلی ، سڑک ، ہر ندی نالہ، ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا اور سمندر کا منظر پیش کر رہا، جبکہ انڈر پاس ، گرائونڈ اور میدانی علاقے بڑے تالاب کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ نشیبی علاقے مکمل ڈوب چکے ہیں ۔ 21 افراد جان کی بازی ہار گئے اور متعدد زخمی ، جبکہ لاکھوں افراد شدید متاثر ہیں۔

بیشتر علاقوں میں بجلی مکمل غائب ہے۔ انتہائی مجبوری میں گھروں سے جو نکلے وہ سواری کے ساتھ یا سواری کے بغیر سڑکوں پر پھنسے ہوئے تھے اور شدید مشکلات کے بعد گھروں تک پہنچ گئے ہیں، بڑی تعداد میں سرکاری اور نجی دفاتر اور گھر وں میں کئی فٹ تک پانی جمع ہوگیاہے۔ لوگوں کی زندگی کی جمع پونجی کلی یا جزوی تباہ ہوچکی ہے۔ سڑکوں پر تیرتے کنٹینرز شاید ہم سب نے پہلی بار دیکھے ہوں گے۔

سچ یہ ہے کہ اہل کراچی بہت مشکل میں ہیں اور اس مشکل میں یقیناً وفاقی ، صوبائی اور بلدیاتی حکومتی کی نا اہلی کا اہم کر دارہے۔

کراچی عملاً 1985ء سے قبل جماعت اسلامی ، جمعیت علماء پاکستان اور پیپلزپارٹی کے پاس رہا ہے اور 1985ء سے 2016ء تک عملاً کلی طور ایم کیوایم کی گرفت رہی ۔ 2016ء کے بعدمئی 2018ء تک وفاق میں ن لیگ رہی مگر کراچی میں اس کی کوئی نمائندگی نہیں رہی اور اس نے بھی توجہ ہی نہیں دی ، تاہم قیام امن کے حوالے سے نواز شریف حکومت کا مثبت کردار اہل کراچی کے لیے تحفہ اور خوف و دہشت سے نجات کا ذریعہ بنا۔ اگست 2018ء سے تا حال وفاق میں تحریک انصاف کے عمران خان کی حکومت اور کراچی سے جنرل نشستوں پر اس کے 14 ممبران قومی اسمبلی اور 22 ممبران سندھ اسمبلی اور ایک ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن میں وائس چئیر مین ہے۔ ایم کیوایم پاکستان اس وقت بھی وفاق میں تحریک انصاف کی اتحادی ہے ، جس کے 4 ارکان قومی اسمبلی اور 13 ممبران سندھ اسمبلی ، میٹروپولیٹن کارپوریشن کراچی اور 6 میں سے 4 ڈسٹرکٹ میونسپل کارپورشن کی حکومت ہے۔ پیپلزپارٹی 2008ء سے صوبائی حکومت میں ہے ،کراچی سے 3 ارکان قومی اسمبلی ، 4 ارکان سندھ اسمبلی ، کراچی ضلع کونسل اور دو ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کی حکومتیں ہیں۔ یعنی کراچی نے سب کو موقع دیا جماعت اسلامی کےعبدالستار افغانی مرحوم و نعمت اللہ خان مرحوم اور ایم کیوایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور سید مصطفیٰ کمال کے بلدیاتی ادوار کے سوا سب نے مایوس کردیا ۔ سب مجرم ہیں اور سب کو اپنے جرم کا ادراک اور احساس کرتے ہوئے کراچی کے عوام سے معافی مانگی چاہئے ۔

یہ بات درست ہے کہ اس بار کی بارشیں انتہائی غیر معمولی اور غیر متوقع تھیں ، بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ 90سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے، لیکن حکومتوں کا کردار بہتر ہوتا تو آج اتنی مشکلات نہ ہوتیں ۔ افسوس یہ کہ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت کے نمائندے ایک دوسرے ، جبکہ دیگر ان دونوں کو سخت تنقید پر لگے ہوئے اور عملی میدان میں کام کم ،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش زیادہ ہورہی ہے ، یعنی ہر جانب سلفی مافیا نظر آئے گا۔ یہ وقت اہل کراچی کی مدد اور ان کے لئے دعا کا ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں جب بھی کوئی مشکل آئی اہل کراچی نے اپنا مثالی کردار ادا کیا ہے اور آج کراچی مشکل میں ہیں تو مذاق مت بنائیں، ہر تعصب پر لعنت بھیج دیں، اہل کراچی مدد کریں، دعا کریں، تعاون کریں۔ سفلی اور تنقید کے لیے پھر موقع ملے گا، آج ہم سب کراچی کو بچانے کی کوشش کریں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے