کالم

زبانوں کے نہیں بولنے والوں کے بارے میں سوچیے

ستمبر 8, 2020 3 min

زبانوں کے نہیں بولنے والوں کے بارے میں سوچیے

Reading Time: 3 minutes

دانش ارشاد ۔ صحافی، اسلام آباد

انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر واحد ہندوستانی ریاست ہے جہاں تاحال اردو سرکاری اور دفتری زبان ہے تاہم غیر اعلانیہ طور پر وہاں کی عدالتوں اور دفاتر میں انگریزی زبان کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں اردو کے ساتھ مزید چار زبانوں کو بھی دفتری زبان کا درجہ دینے کے لیے مسودہ سامنے آیا ہے، جس کی منظوری 2 ستمبر کوہندوستان کی مرکزی کابینہ نے دی۔ اب یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا اور وہاں سے منظوری کے بعد اس قانون کا اطلاق ہو جائے گا۔ ان زبانوں میں انگریزی، اردو، ڈوگری، کشمیری اور ہندی شامل ہیں۔ بھارتی کابینہ کے اس فیصلے کے سامنے آنے کے بعد پہاڑی،گوجری بولنے والے قبائل اور سکھوں کی جانب سے پہاڑی،گوجری اور پنجابی زبان کو بھی سرکاری اور دفتری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔

ہندوستان کی کابینہ کا یہ فیصلہ جہاں ریاست میں رابطوں کی زبان یعنی اردو کو محدود کرنے کا سبب بنے گا، وہیں یہ فیصلہ ریاست جموں کشمیر کے انتظامی امور میں واضح مداخلت ہے کیونکہ ہندوستان نے ایک سال قبل منظور کیے گئے جموں وکشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019کی دفعہ 47 میں یہ واضح کیا تھا کہ سرکاری زبانوں کا فیصلہ نئی اسمبلی کرے گی، یہ دفعہ نئی قانون ساز اسمبلی کو اختیار دیتی ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میں ایک یا ایک سے زائد زبانوں کو سرکاری مقاصد کے استعمال کے لیے چنے، لیکن ہندوستان کی مرکزی کابینہ نے یہ فیصلہ ایکٹ 2019کے تحت اسمبلی بننے سے قبل ہی کر ڈالا۔

ہندوستان کی مرکزی کابینہ کی جانب سے پانچ زبانوں کو دفتری زبان قرار دینے کے فیصلے کے بعد جہاں مزید تین زبانوں کو دفتری زبان دینے کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ان پانچ زبانوں کو دفتری زبان کے طور پر کیسے استعمال کیا جا سکے گا؟ کیونکہ جموں و کشمیر میں عملاً انگریزی اور اردو پڑھی اور لکھی جاتی ہے اور اردو زبان ہی ریاست کے تمام حصوں میں رابطوں کی زبان ہے ۔ گو کہ اب انگریزی اس پر غالب آ رہی ہے لیکن اس سے قبل رابطوں اور سرکاری خط و کتابت کیلئے اردو اور انگریزی کا استعمال ہی ہوتا رہا ہے۔

اس وقت کابینہ نے جن زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ دیا ہے ان پر نظر دوڑائی جائے تو ریاست جموں و کشمیر میں کشمیری بولنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو تقریبا 60 لاکھ کے قریب ہے لیکن کشمیری پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے،اسی طرح ڈوگری اور ہندی دیونا گری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے جو جموں کے ہندو بھی پڑھنا لکھنا کم ہی جانتے ہیں، یہاں سرکاری خط و کتابت کیلئے انگریزی اور اردو کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس لیے دیونا گری رسم الخط سے زیادہ انہیں شناسائی نہیں ہے۔
اسی طرح جن زبانوں کو سرکاری زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ان میں پہاڑی بولنے والوں کی تعداد تقریبا 15 لاکھ کے قریب ہے اور دس لاکھ کے لگ بھگ گوجری بولنے والے موجود ہیں جبکہ کل آبادی کا تقریبا دو فیصد سکھ پنجابی بولنے والے بھی موجود ہیں۔
اس صورتحال میں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ایک ہی لیٹر پر جب مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے آفیسرز مختلف زبانوں میں تبصرہ کریں گے تو حکومت اپنا کام کیسے کر سکے گی؟

اس مسئلے پر سری نگر سے صحافی ریاض مسرور تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”سرکاری زبان: اس کا کیا مطلب ہے؟ عدالتیں انگریزی لکھیں گی ، پولیس انگریزی لکھے گی ، سیکرٹریٹ میں انگریزی ہی انگریزی ہے۔ اب تو اساتذہ اور طلبا انگریزی زبان کا ہی استعمال کرتے ہیں ، حالانکہ ان میں سے بیشتر اب بھی Elite کو Elyte بولتے ہیں۔
2020 تک اردو سرکاری زبان رہی ، اس حیثیت نے اردو کو کیا فائدہ پہنچایا سوائے اس کے کہ ہمیں کچھ آفیسرز جو اردو دان بنے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زبان اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اس زبان کے بولنے والے باقی رہیں گے۔ اس لئے بولنے والوں کے بارے میں سوچیے،نہ کہ ان کے الفاظ کے بارے میں”۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے