کالم

سوال اور نئے کردار کی انٹری

ستمبر 8, 2020 2 min

سوال اور نئے کردار کی انٹری

Reading Time: 2 minutes

 محمد حسنین اشرف

مغل سلطنت اور خاندان غلاماں کا چشم و چراغ ایک عرصے سے بیمار تھا۔ تجارت کی غرض سے آئے گوری چمڑی والے طبیب نے مدد کی پیشکش کی۔ علاج شروع کیا گیا۔ سب حیرت زدہ رہ گئے جب برسوں سے بیمار شہزادہ یکدم تندرست ہو کر دوڑنے بھاگنے لگا۔ بادشاہ کے چہرے پر طمانیت اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اگلے روز طبیب کو دربار میں طلب کیا تاکہ اسے انعام و اکرام سے نوازا جا سکے۔ بادشاہ اپنے وزیروں اور مشیروں کے جلو میں جلوہ افروز تھا۔ طبیب حاضر ہوا، جھک کر سلام کیا۔ بادشاہ نے اپنے روایتی جاہ و جلال سے پوچھا:
مانگو کیا مانگتے ہو؟
طبیب نے کہا حضور میری قوم کو آپ کے ملک میں اگر تجارت کی اجازت مل جائے تو میرے لیے یہی انعام اور میری قابلیت کا اکرام بھی یہی ہوگا۔

بادشاہ حیران و پریشان کہ مانگنے کو اگر مانگتا تو سلطنت مانگ سکتا تھا۔ لیکن اس نے مانگا بھی تو کیا مانگا۔ خیر، بادشاہ نے مشیر خاص کو قریب آنے کا اشارہ کیا اور سرگوشی کے انداز میں یوں گویا ہوا:
‘دیکھنے کو تو یہ طبیب سڑک چھاپ سا لگتا ہے۔ کہو تو دے دیں اجازت؟’۔
مشیر خاص کے چہرے پر خدا خوفی اُمڈ آئی۔ رقت آمیز آواز سے گویا ہوا:
‘حجور کا اقبال بلند ہو۔ دے دیجیے اجاجت، سُسرا غریب ہے، گھر بار چل جایے گا’۔

بادشاہ نے مشیر خاص کی طرف دیکھا اور کہا ‘اوکے جانی، تجھے پتہ ہے تجھے میں انکار نہیں کرسکتا’۔

اس کہانی کی ٹوئٹر پر چل رہی بحث سے مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔

عجیب بات یہ ہے کہ ملک پاکستان میں سوالوں کے جواب میں یا تو گالی دی جاتی ہے یا پھر سائل سوال سمیت غائب ہو جاتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ تلخ سوال جو ایک صحافی نے اٹھایا تھا۔ احتساب کے دلداہ اس کا جواب دیتے۔ لیکن اس پر آئیں بائیں اور شائیں کے علاوہ ہمیں کچھ سننے کو نہ مل سکا۔ اس پر ایک نیا کردار اچانک سے میدان میں آیا جس کی انٹری حیران کن تھی۔

ادیب یا ناول نگار جب بھی کوئی کہانی لکھتا ہے تو کرداروں کی انٹری ضرورت کے حساب سے ہوتی ہے۔ جسے شاطر قاری فوری پکڑ سکتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ اب ادیب کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تو وہ ایک نیا مہرا اور ایک نیا کردار فوری لے آیا تاکہ قاری کا ذہن ادیب کی کمزوری پر جانے کی بجائے، نئے کردار کی انٹری میں الجھ جائے۔ یوں کہانی کو بے جا طویل کھینچنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس سے ادیب اپنی چاہت کے مطابق تمام اہداف آسانی سے حاصل کرلیتا ہے۔

بجتے گانے اور چلتی موسیقی میں جب اچانک سے ایک نیا ساز بجنے لگے تو اٹھنے والے سوال بہت فطری ہوا کرتے ہیں۔ یہ فوری سوال کہ اس ‘ساز ‘ کی ‘اب’ ضرورت کیوں پیش آئی بہت اہم ہے۔ اگر سب کچھ اتنا ہی سیدھا اور سادہ تھا تو دشنام کی بجائے جواب دیا جاتا۔ لیکن یہ دشنام اور ایک نئے کردار کی انٹری بھی اصل میں ایک جواب ہی ہے۔ اور وہ جواب یہ ہے کہ کہانی لکھنے والے کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔ اس لیے اس نے نیا کردار متعارف کروایا کہ قاری کے ذہن کو نئے کردار کی آمد میں الجھا دیا جایے اور اصل سوال سے نظر ہٹا دی جائے۔

سوال مگر اپنی جگہ قائم ہے اور لوگ پوچھتے پھرتے ہیں کہ حضور کا اقبال بلند ہو، بتائیے رسیدیں کہاں ہیں؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے