پاکستان کالم

سیالکوٹ موٹروے واقعہ اور وجوہات

ستمبر 19, 2020 4 min

سیالکوٹ موٹروے واقعہ اور وجوہات

Reading Time: 4 minutes

عصمت حمید ۔ لندن

مولانا طارق جمیل نے سیالکوٹ موٹروے پر ہونے والے گھناونے واقعہ کی وجہ ملک میں مخلوط نظام تعلیم کو قرار دیا ہے
جب کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس کی اصل وجہ مولانا طارق جمیل اور ان کے دوست نیازی اور ان کے ماسٹرز ہیں۔

ایک طرف مولانا طارق جمیل ہر وقت نو دولتیوں اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی عورتوں کے جھرمٹ میں نظر آتے ہیں۔ تاثر یہی ہے کہ ان لوگوں نے اپنی جنسی جنت یہاں بنائی ہوئی ہے اور عوام کو موت کے بعد والی جنت کی حوروں کی جسمانی خوبیاں بیان کر کے ان کی جنسی آسودگی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔

جوانی میں پلے بوائے سے مشہور عمران خان نیازی بھی عوام بتاتے رہتے ہیں کہ اصل سکون تو قبر میں ہے۔

پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں طبقاتی ڈیوائڈ اتنا زیادہ بڑھا ہے کہ اب وہ ایک واضح شکل اختیار کر گیا ہے، ملک میں پہلے تو غریب، لوئر مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس اور امیر کلاس ہوتی تھی اور یہ کسی نہ کسی لحاظ سے ایک دوسرے سے کونیکٹڈ تھے لیکن مشرف کے دور سے شروع ہونے والی معاشرتی انحطاط نے اب اس کی شکل مکمل طور پر بدل کر رکھ دی ہے۔ اب صرف دو طبقے ہیں ایک تو معاشی طور پر ستایا ہوا، جنسی طور پر ترسا ہوا، ذہنی طور پر برین واشڈ محب وطن، مذہبی جنونی طبقہ ہے جو %95 ہے، اور دوسرا نودولتیوں پر مشتمل مادر پدر آزاد الٹرا ماڈرن طبقہ جو صرف %5 ہے، جبکہ المیہ یہ ہے کہ یہ %95 طبقہ ملک کے %5 ریسورسز استعمال کر رہا ہے اور %5 طبقہ %95 ریسورسز پر قابض ہے، اور یہ معاشرتی، معاشی، زہنی، اخلاقی خلیج ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔

ایک طرف اس %5 فیصد مادر پدر آزاد معاشی، معاشرتی اور اخلاقی طور پر کرپٹ طبقے کا رہن سہن ہے جو ڈیفینس ہاوسنگ سوسائٹیوں، انسٹاگرام اور انٹرٹینمنٹ فیلڈ میں نظر آتا ہے، اپ پچھلے چند سالوں میں بننے والے ڈرامے دیکھیں جو کہ ڈیفینس کے بڑے بڑے عالیشان گھروں، بڑی بڑی سڑکوں، ٹائٹ، جینز، ٹی شرٹ، گرل فرینڈز، بواے فرینڈز، ایکسٹرا میریٹل افیرز پر مشتمل ہیں اور ان پروگراموں کو بنانے والے اور ان میں کام کرنے والے زیادہ تر لڑکے لڑکیاں اسی %5 طبقے کے بچے بچیاں ہیں جو سوشل میڈیا پر اپنے لیو ان رلیشنز اور مغربی طرز زندگی کا بھرپور مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں، ان کی گرومنگ ایسی ہے کہ کسی بھی منافق اور مٹیریلسٹک انسان کو پیچھے چھوڑ دے، ان کی سوشل میڈیا ڈسکشن عمومن ایسی ہوتی ہیں کہ ایکٹر نعمان اعجاز نے اپنے معاشقوں کا زکر ایسے کر دیا اس کو ویسے کرنا چاہیے تھا، یہ فیمنزم کے نام پر مرد جانور ہے کہ پوسٹرز لے کر ان کیمرہ پروٹیسٹ کرتے بھی نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں جانور ان کے اپنے باپ، بھائی، مامے، چاچے، خاوند اور بیٹے ہیں جو کہ اس ملک کے اصل حکمران ہیں اور اپنے مفادات کے لیے ہر قسم کے ظلم، جنس کی بنیاد پر تفریق اور لاقانونیت کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں، اس طبقے کو ملک میں مِسنگ پرسنز، انسانی حقوق کی پامالی، لاقانونیت،مہنگائی، ڈیموکریسی وغیرہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

جب کہ دوسری طرف %95 طبقہ ہے جو آج کے دور کی بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم ہے، نہ بجلی ہے نہ پانی۔ نہ گیس ہے، ملازمتیں اور کام بہت کم ہے، جن تعلیمی اداروں میں یہ طبقہ پڑھتا ہے وہاں پر شدید جنسی، مذہبی، معاشرتی گھٹن ہے، ان کی ذہنی سطح اور قابلیت اتنا کم ہے کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں بنیادی سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے جو کہ کسی بھی آٹھویں جماعت کے بچے کے دماغ کے لیول کے ہوتے ہیں، لیکن اس طبقے کو لیڈ کون کر رہا ہے %5 طبقے سے تعلق رکھنے والا اسٹیبلشمنٹ پر مشتمل طارق جمیل اور نیازی گروہ، طارق جمیل اٹھتا، بیٹھتا کھاتا پیتا، رہتا تو اس پانچ فیصد الٹرا ماڈرن، مادر پدر آزاد طبقے میں ہے لیکن اس کی ساری تعلیمات اور بھاشن اس پچانوے فیصد پسے ہوے طبقے کے لیے ہیں، یہی حال نیازی کا ہے، ستر سال کی عمر میں بھی اس پلے بواے کا لائف سٹائل وہی ہے جو اس کا ایٹیز اور نائنٹیز میں تھا، یعنی کہ پیسہ، نشہ اور عورتیں لیکن پسے ہوے طبقے کو یہ انتہای ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ تم لوگوں کا اصل سکون صرف قبر میں ہے۔

اب آج کی تاریخ میں کیا ہو رہا ہے %95 پسا ہوا طبقہ جو دن رات ٹی وی ڈراموں اور سوشل میڈیا پر اس %5 طبقے کی الٹرا ماڈرن اور لیوش لیویش لائف سٹائل دیکھتا ہے تو تو شدید معاشرتی، معاشی، مزہبی اور جنسی گھٹن محسوس کرتا ہے شدید معاشرتی، معاشی، مزہبی اور جنسی گھٹن محسوس کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں ان سے نفرت اور ساتھ ہی اس کے نتیجے میں ان سے نفرت اور ساتھ ہی ان جیسا ن جیسا بننے کی خواہشات اپنے اندر پالتا ہے، دوسری اپنی اس گھٹن کو اپنے سے کمزور پر نکالتا ہے چاہے وہ بچہ ہو، عورت ہو یا اپنے سے کمزور مرد، طرف یہ الٹرا ماڈرن نودولتیوں پرمشتمل طبقہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مغرب کو بھی پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے،
جب رات کے اندھیرے میں ملک کے %5 پر مشتمل اس ایلیٹ طبقے کا کوئی فرد ڈیفینس سے نکل کر %95 طبقے کے علاقے سے گزرتا ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو سیالکوٹ موٹر وے پر ہوا، معاشرتی، معاشی، جنسی، مزہبی اور زہنی گھٹن کا شکار %95 طبقے کے دو افراد اپنی ساری محرومیوں اور نفرتوں اور نفرتوں کے ساتھ حملہ اور ہوتے ہیں۔

ایک طرف مکمل جنسی آزادی ہے اور دوسری طرف شدید جنسی گھٹن، جس طرح کی طبقاتی تقسیم کی گئی ہے اس میں آنے والا وقت اس سے بھی برا ہو گا، اسٹیبلشمنٹ نے یہ تقسیم خود کو اور اپنی اولاد کو ہر قسم کی آزادی اور مغربی آسائشیں دینے اور ملک پر اپنی مکمل اجارہ داری کے لیے کی ہے، شاید اسٹیبلشمنٹ کا مقصد مصر اور روسی طرز کے مکمل حکومتی کنٹرول کا ہے لیکن وہاں پر اس طرح کا کنٹرول اب تک اس لیے چل رہا ہے کہ وہاں طبقاتی تقسیم اتنی بھیانک نہیں ہے اور اگر کسی سطح پر ہے بھی تو چھپی ہوئی ہے، اور  عوام کو روزمرہ کی بنیادی سہولتیں میسر ہیں اور ان کو قانونی برابری کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی، مزہبی اور جنسی آزادی حاصل ہے، لیکن یہاں تو عوام ہر گزرتے دن کے ساتھ بنیادی انسانی سہولتوں سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف پاپا جونز دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہے ہیں، اگر یہ سب ایسے ہی چلتا رہا تو وہ دن زیادہ دور نہیں جب ڈیفینس ہاوسنگ سوسائٹیوں پر ٹینک پہرہ دیتے نظر آئیں گے، لیکن تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے