پاکستان کالم

مشروط صوبہ، اپوزیشن ہوشیار باش !

ستمبر 22, 2020 5 min

مشروط صوبہ، اپوزیشن ہوشیار باش !

Reading Time: 5 minutes

عبدالجبار ناصر

الحاق سے جزوی صوبے تک!
آج کل گلگت بلتستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ہر جانب بازگشت ہے اور ’’الحاق ہوا ہے‘‘ لیکر ’’آئینی صوبہ، عبوری صوبہ کے بعد اب معاملہ ’’مشروط صوبہ‘‘ یا ’’جزوی صوبہ ‘‘ تک پہنچ چکا ہے۔ ایک طبقہ خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1، 51، 257، 258 اور دیگر آرٹیکلز میں دعوے کی حد تک ترامیم بھی کرا چکا ہے (جو اتنا آسان نہیں ہے )۔

دوسرا طبقہ فکر مند ہے کہ اس پیاری دھرتی کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ دراصل گلگت بلتستان میں ایک طویل عرصے تک ’’الحاق ہوا ہے‘‘ کی راگنی کام نہ آ سکی تو ’’آئینی صوبہ‘‘ کا ہنگامہ شروع ہوا، پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے جب ’’آئینی صوبے‘‘ پر غور کیا تو 14 طبق روشن ہو گئے اور ن لیگ کے آخری دور میں ’’عبوری صوبے‘‘ کا شوشا چھوڑا گیا مگر سنجیدہ لوگوں نے غور کیا تو اس پر بھی مشکل بلکہ ’’کشمیر پالیسی ‘‘ کی تباہی نظر آئی تو خاموش ہوئے اور آرڈر 2018ء پر گزارہ کیا۔ یعنی قائداعظم محمد علی جناح مرحوم، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور محمد نوازشریف تک تمام سیاسی قائدین اور عوامی حکمران چاہتے ہوئے بھی قانونی اور فنی مشکلات کی وجہ سے زیادہ چھیڑ چھاڑ نہ کر سکے ۔ اب خان صاحب کے ٹائیگرز اور یوتھیوں کو جوش آیا تو ’’مشروط صوبہ‘‘ کا نعرہ اور اس پر بھی کچھ نے تو ’’جزوی صوبہ‘‘ کی بات بھی کی اور بعید نہیں کہ چند روز میں معاملہ ’لے پالک صوبہ، طفیلی صوبہ یا رات صوبے‘ تک پہنچ جائے۔

صاحبان علم و دانش کا مطالبہ !
گلگت بلتستان کےصاحب عقل، صاحب بصیرت و بصارت، صاحب مطالعہ، صا حب علم ، قانونی ، آئینی ، عالمی اور تاریخی پوزیشن سے واقف اور غیر متصب ہر باشعور فرد کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخی ، قانونی ، آئینی ، عالمی اور پاکستان اپنی پوزیشن دیکھتے ہوئے بہتر سے بہتر نظام دیکر عوامی بنیادی مسائل کو حل کرے اور پاکستانی حکومت اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی اسی کا وعدہ کرچکی ہے۔

فیصلہ اور چار باتیں !
صاحبا ن علم کا یہ مطالبہ بھی رہاہے کہ گلگت بلتستان کے سیاسی یا انتظامی مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل چار باتوں کو ضرور مد نظر ضرور رکھیں ورنہ تاریخ ہمیں بھی وطن فروشوں میں شمار کرے گی ۔ (1)جو بھی نظام دیں اس سے کشمیریوں کی 90 سالہ جدوجہد آزادی اورقربانی متاثر نہ ہو، یعنی ہمارے عمل سے کشمیر ایشو پر بھارت فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ (2)پاکستان کی کشمیرپالیسی کونقصان نہ ہو۔ (3) ریاست جموں وکشمیرکی وحدت کا خیال رکھا جائے ۔(4)فیصلہ گلگت بلتستان کےعوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔ ان چار باتوں کی گہرائی میں جائیں گے تو خطے کی پوری قانونی ، آئینی ، عالمی اور تاریخی پوزیشن واضح ہوگی ۔ اس لئے ان چار باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو بھی انتظامی یا سیاسی سیٹ حکومت دے گی سر آنکھوں پر۔

موجودہ حکومت کے عزائم !
موجودہ حکومت کہاں تک جانا چاہتی ہے اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے ،کیونکہ بلیک اینڈ وائٹ میں کوئی بھی چیز سامنے نہیں آئی ہے ، تاہم جس درجے کی باتیں ہورہی ہیں ، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش ضرور کی جارہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں۔ (1)خطے کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ چار نکات پر غور کریں اور مناسب و قابل عمل فیصلہ کریں۔ (2) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرح تمام کشتیاں جلاکر خوکشی پر اتر آئیں یعنی کشمیریوں کو کلی طور پر نظر انداز کرکے ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے زیر انتظام حصوں کا انظمام کریں ، یہ بنیادی طور پر کمی بیشی کے ساتھ ’’اِدھر ہم اور اُدھرتم ‘‘ والا فارمولہ ہی ہوگا۔

دو سالہ پسپائی !
ہم عام انتخابات 2018ء کے بعد کی صورتحال پر غور کریں تو ہماری حکومت عملاً دانستہ یا غیر دانستہ ’’آپشن نمبر2‘‘ کی جانب گامزن ہے۔ مودی کی کامیابی کی خواہش ہویا 5 اگست 2019ء کے مودی شرمناک عمل کے بعد کی حکمت عملی یعنی عملاً خاموشی ۔ امریکی صدر سے ملاقات کو ورلڈ کپ کی طرح کامیابی قرار دینے کا اعلان و استقبال ہو یا کشمیریوں کو اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد نہ کرنے کی تلقین ۔ نئے سیاسی نقشے میں پہلی بار ریاست جموں و کشمیر کے اہم حصے ’’لیہہ ‘‘ کو عملاً خالی چھوڑنا ہو یا ’’شاہراہ کشمیر‘‘ کو ’’شاہراہ سرینگر ‘‘ تک محدود کرنا۔ کل مقبوضہ کشمیر اور وہاں کے ایک کروڑ 35 لاکھ سے زائد عوام کی بجائے صرف وادی کشمیر اور کشمیر کے صرف 90 لاکھ مسلمانوں کی بات کی بار بار تلقین (یعنی کشمیریوں کو تقسیم )کرنا ہو یا دستیاب ریاستی قیادت کو کلی طور پر نظر انداز کرنا۔ قائد حریت سید علی گیلانی صاحب کی حریت کانفرنس سے علیحدگی بھی غور و تحقیق طلب ہے کہ ان کے عمل کا تعلق بعض افراد کے ساتھ مالی شکایات کا معاملہ ہے یا کچھ اور شکایات بھی ہیں۔ چین سے ہماری دوستی ہمالہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہیں اور دونوں ممالک کو اس پر فخر بھی ہے۔ دوستی اپنی جگہ مگر دوستی میں گھر کے ایک حصے سے دستبردار ہونا افسوسناک ہے جرم ہے ۔ ہمارے عمل کی وجہ سے 73سالہ تاریخ میں پہلی بار چین ریاست جموں و کشمیر میں چوتھا بنیادی فریق بن کر سامنے آیا ہے اور یہ بھی دو سال میں ہی ہوا ہے۔

غالباً ہم نے اپنے نئے سیاسی نقشے میں ’’لیہہ ‘‘ کا خالی حصہ اسی لئے چھوڑا ہے۔ بعض طبقے تو ہمارے عمل کو 5 اگست 2019ء کے بعد دوسری قسط کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔ خلاٖصہ یہی ہے کہ دو سال میں ہم بہت حدتک پسپا ہوچکے ہیں اور اب اس پسپائی کا بوجھ خان صاحب تنہا اٹھانے کی بجائے سب میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے تمام سیاسی قوتیں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے صورتحال کا جائزہ ضرور لیں اور ہوشیار باش!

گلگت بلتستان کا حقیقی حل!
بعض احباب یہ سوال کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان ’’آئینی، عبوری، مشروط اور جزوی صوبہ ‘‘ نہیں تو پھر حل کیا ہے ؟ احباب اگر واقعی مخلص ہیں تو نہ صرف بہترین حل بلکہ مودی کے منہ پر طمانچے کا راستہ موجود ہے ۔ آزاد کشمیر در اصل ریاست جموں و کشمیر کی نمائندگی کر رہا ہے اور پاکستان کے آئین ، آزاد کشمیر کے عبوری آئین اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے موقف میں یہی واضح ہے ۔ 24 اکتوبر 1974ء تک قائم ریاست جموں و کشمیر تین صوبوں یعنی (1) صوبہ کشمیر، (2)صوبہ جموں اور (3) صوبہ گلگت پر مشتمل تھی ۔پہلا حل آزاد کشمیر کو اسی پوزیشن پر لیکر جائیں ۔ صوبہ کشمیر کی نمائندگی آزاد کشمیر ،صوبہ گلگت کی نمائندگی گلگت بلتستان اور صوبہ جموں کی نمائندگی یہاں موجود مہاجرین جموں و لداخ کو دیں ۔ دوسرا حل ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے زیر انتظام دونوں حصوں یعنی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو برابری کی بنیاد پر سیٹ آپ دیں، چاہئے وہ ایک انتظامی یونٹ کی شکل میں ہو یا دو انتظامی یونٹوں میں۔ اس سے ہٹکراگر 1846ء کے معاہدہ امرتسر ، 1935ء کے مہاراجہ انگریز معاہدہ ، میر آف ہنزہ و میر آف نگر کی مبینہ الحاقی پرچیوں ،اہلیان دیامر و حکومت کے معاہدے یا کسی چیز کو بنیاد بناکر کوئی نظام یا حل مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ خود کشی کے مترادف ہوگا۔

بائے چوائس پاکستانی!
پاکستان کے ہر فرد بالخصوص وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے ہمنواؤں کو علم ہونا چاہئے کہ گلگت بلتستان کے عوام آئینی پاکستانیوں سے پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور وہ ’’بائے چوائس‘‘ آئینی پاکستانی بننے کی آرزو اور کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی معلوم ہو کہ گلگت بلتستان کے کچھ افراد محرومیوں کے خاتمے کی بات ضرور کرتے ہیں ، مگر انہوں نے کبھی پاکستان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا اور نہ کسی کے آلہ کار بنے ۔ عبدالحمید خان نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے تعلق جوڑا اور گلگت بلتستان کے عوام نے ان کو کلی طور پر مسترد کیا اور آج وہ نہ صرف اپنے ماضی سے توبہ تائب ہوئے ہیں بلکہ معافی در معافی میں مصروف ہیں اور حکومت کے خاص مہمان ہیں۔ اس لیے گلگت بلتستان کے عوام کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔

درخواست صرف اتنی ہے کہ گلگت بلتستان یا آزاد کشمیر کے سیاسی مستقبل کا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل وہاں کی حقیقی قومی ، سیاسی، مذہبی اور سماجی قیادت اور صاحبان علم و دانش کو اعتماد میں ضرور لیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے