کالم

اڑنے دو پرندوں کو ابھی

ستمبر 23, 2020 5 min

اڑنے دو پرندوں کو ابھی

Reading Time: 5 minutes

عمیر احمد رانا

اردو کے صاحب طرز شاعر  بشیر بدر نے کہا تھا:
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

اپنی تمام تر بے اعتدالیوں، بد صورتیوں اور بد نمائیوں کے باوجود اس دنیا میں کچھ ہے جو اس کے دلکش، دلفریب، خوبصورت اور پرکشش وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے تو وہ مسکراہٹیں بکھیرتے، چاند ستاروں سے چمکتے معصوم بچے ہیں۔ گھروں میں خوشیاں ان پھولوں سے ہوتی ہیں، کوئی بھی تہوارہو ، بچے نہ ہوں تو پھیکے پڑ جاتے ہیں ۔ ہماری تفریح گاہوں کے رنگ نہ رہیں گے اگر یہ معصوم بچے اپنے وجود سے انہیں رونق نہ بخشیں۔لیکن شاید ہمارا سماج ، انسانی روایات اور جمالیاتی احساسات بڑھاپے کا شکار ہو گئے ہیں۔ ہماری عمر کے سب سے خوبصورت ، دیومالائی اور الہامی حصے کو گرہن لگ رہا ہے۔

بچپن کا زمانہ پاکستان میں بقاءکے خطرے سے دو چار ہے کیونکہ ہمارے بچے اور انکی معصومیت محفوظ نہیں ہیں۔ خوبصورت تتلیوں اور چمکتے جگنوو¿ں کے تعاقب میں بھاگتے دوڑتے ، ہنستے کھیلتے بچے بہیمانہ تاریکیوں کے ستم کا شکار بن رہے ہیں۔ جن کا آج محفوظ نہیں ہے، وہ ہمارے کل، ہمارے مستقبل کے محافظ کیسے بنیں گے۔

کسی اخبار کا صفحہ اول ہو یا نیوز چینلز کا ہر گھنٹے نشر ہونے والا بلیٹن، بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کی خبر سرخیوں میں دکھائی دیتی ہے۔ شہری ہو ں یا دیہی ، سہولیات زندگی سے آراستہ ہوں یا پسماندہ ترین علاقے، مملکت خداداد میں معصوم بچے جنسی حیوانیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کے اعداد و شمار نہ صرف چشم کشا ہیں بلکہ دل دہلا دینے والے ہیں۔

پنجاب حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2009 سے2019 تک دس سالوں میں 17ہزار914 بچے اغواءاور جنسی حیوانیت کا شکار بنے۔ صوبے کے چھتیس اضلاع میں بچوں سے جنسی جرائم میں لاہور سر فہرست ہے جہاں ان دس سالوں میں تین ہزار 666 بچوں کو اغواءاور جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان اعداد و شمار کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ جرائم کی اتنی بڑی شرح کے باوجود دس سالو ںمیں صرف پانچ افراد کو ہی سزا دی جا سکی۔فہرست میں دوسرے نمبر پر اوکاڑہ ہے جہاں دس سالوں میں 969بچے اغواءاور جنسی ذیادتی کا شکار ہوئے۔ یہاں بھی صرف دو ملزمان ہی اپنے کئے کی سزا پا سکے۔ملک کا تیسرا بڑا شہر فیصل آباد بچوں کے ساتھ 907جرائم کے ساتھ فہرست میں بھی تیسرے نمبر پر ہے ۔

بدقسمتی سے ان 907جرائم میں ملوث کسی ایک بھی ملزم کو سزا نہ مل سکی۔ان تینوں شہروں کے علاوہ بچوں کے ساتھ جرائم کی دس سالہ تاریخ میں صوبے کے ٹاپ ٹین شہروں میں رحیم یار خان، گوجرانوالہ،ملتان، ڈیرہ غازی خان، شیخوپورہ، بہاولنگر اور سرگودھا شامل ہیں۔ بچوں سے ذیادتی کے سکینڈل کے باعث بدنام رہنے والا شہر قصور چھتیس اضلاع کی فہرست میں تیرہویں نمبر پر ہے۔دس سالوں میں سزاو¿ں کے اعتبار سے راولپنڈی سرفہرست ہے جہاں جنسی ذیادتی کے 28ملزموں کو سزا سنائی گئی، چکوال میں 24، خانیوال میں سترہ ملزموں کو سزائیں دی گئیں۔اعداد و شمار کے مطابق دس سالوں میں میانوالی میں سب سے کم 56کیسز رپورٹ ہوئے۔ اس کے بعد 83کیسز کے ساتھ بھکر ، خوشاب میں دس سالوں کے دوران بچوں کے اغواءاور ذیادتی کے 86کیسز رپورٹ ہوئے۔

بچوں کی بہبود اور تحفظ کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ”ساحل“ نے بچوں سے ذیادتی کے صرف سال 2019کے رلا دینے والے اعداد و شمار پیش کئے۔ساحل کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق 2019میں ملک بھر میں بچوں کے ساتھ مختلف جرائم کے 2846(دو ہزار آٹھ سو چھیالیس) کیسز رپورٹ ہوئے۔ بچوں کے ساتھ مختلف جرائم میں 778اغواءکے کیسز، 405بچے لاپتہ ہوئے، بدفعلی کے 348 کیسز، بچوں سے ذیادتی کے279واقعات رپورٹ ہوئے۔ڈیٹا کے مطابق 2019میں بچوں سے زیادتی کی کوشش کے 210 واقعات، اجتماعی بدفعلی کے 205جبکہ اجتماعی ذیادتی کے 115کیسز رپورٹ ہوئے۔یوں گذشتہ سال ہر روز آٹھ بچے مختلف جرائم کا شکار ہوتے رہے۔

ملک بھر سے اکٹھے کئے گئے ساحل رپورٹ کے مجموعی ڈیٹا کا 53فیصد پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔ 30فیصد کیسز سندھ، 7فیصد اسلام آباد، 6فیصد خیبرپختونخواءجبکہ2فیصد کیسز بلوچستان سے رپورٹ ہوئے۔ساحل کی ہی رپورٹ کے تحت لڑکیوں کی نسبت لڑکے ذیادہ جنسی جرائم کا شکار ہوئے جبکہ بچوں سے مختلف جرائم میں ملوث 3722ملزمان میں سے لگ بھگ 60فیصد یعنی 2222ملزمان بچوں کے انتہائی قریبی رشتے دار تھے۔

ساحل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر منیزے بانو کے مطابق ان اعداد و شمار سے ہٹ کر بچوں سے مختلف جرائم کی ایک بڑی تعداد ہے جو رپورٹ ہی نہیں ہوتی۔ رپورٹ نہ ہو سکنے کی اہم وجہ سماجی دباو¿ ہے جسکے تحت والدین بدنامی کے خوف سے واقعے کو رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ دوسری وجہ بچوں کے ساتھ جرائم میں قریبی رشتے داروں کا ملوث ہونا ہے۔ ڈاکٹر منیزے کہتی ہیں کہ رشتے دار کے ملوث ہونے کے باعث گھر والوں پر دیگر اہلخانہ یا خاندان کے افراد یہ دباو¿ ڈالتے ہیں کہ بدنامی ہو گی، لہذا پولیس سے رجوع نہ کیا جائے، ملزم کی سرزنش کر دی گئی یا وہ اپنے کئے پر پشیمان ہے۔ ان حالات میں ذیادتی کا شکار ہونے والا بچہ انصاف سے محروم رہ جاتا ہے۔

ڈاکٹر منیزے کا کہنا ہے کہ خراج تحسین کے قابل ہیں وہ والدین جو پولیس میں کیس رجسٹر کراتے ہیں اور ملزم کے خلاف جدو جہد کرتے ہیں۔ایسے کیسز کے رپورٹ نہ ہو سکنے کی دوسری اہم وجہ کمزور کریمنل جسٹس سسٹم ہے۔ اہلخانہ اور خاندان کے دباو¿ کو والدین نظر انداز کر بھی دیں تو معاشرے میں موجود دیگر بااثر ذرائع سے والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ کیس واپس لیا جائے۔ یہ دباو¿ برادری کی سطح پر پایا جاتا ہے یا اکثر علاقے کے بااثر افراد جن میں نمبردار، بلدیاتی کونسلرز، چی¿یرمین یا اراکین قومی و صوبائی اسمبلی شامل ہوتے ہیں، وہ بھی ووٹ بینک کیلئے فریقین میں صلح کرا دیتے ہیں۔ تیسری اہم وجہ معاوضے کی مد میں متاثرین کو دیا جانے والا سمجھوتہ ہے۔ ڈاکٹر منیزے کہتی ہیں کہ ایسے واقعات کے مدعی کو نظام سے پہلے خوفزدہ کیا جاتا ہے کہ کہاں تھانے کچہری کے چکر لگاتے پھریں گے، پھر اسکے بعد انہیں معاوضے کی پیشکش کے ساتھ خاموش رہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

ان تمام پہلوؤں سے ہٹ کر ایسے واقعات میں جو سب سے ذیادہ خسارے میں رہتا ہے وہ ان جرائم کا شکار ہونے والا بچہ ہے۔ ماہر نفسیات اور کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر طاہرہ رباب کہتی ہیں کہ بچے کا سب سے بڑا نقصان اسکا بچپن کھو جانا ہے۔ بچہ تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے، سماجی فاصلہ اختیار کر لیتا ہے، اپنے سے بڑے افراد کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ بچے کی شخصیت سازی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ عین ممکن ہے کہ زندگی کے کسی مرحلے پر وہ انتقام کیلئے انہی جرائم کا ارتکاب کرے جس کا وہ کبھی شکار ہوا تھا۔ڈاکٹر طاہرہ رباب کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ متاثرہ بچہ جوان ہو کرمیں جنسی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہو جائے۔سب سے بڑھ کر متاثرہ بچے شادی جیسی سماجی روایات سے بھاگتے ہیں یا غیر فطری جنسی کشش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جنسی جرا ئم کے شکار بچے اگر حساس طبیعت کے ہوں تو بڑی عمر کو پہنچ کر مسلسل ڈپریشن اور کمپلسو ڈس آرڈر یعنی وہم کے مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ خود کو قابل مذمت سمجھنے لگتے ہیں جو انہیں خودکشی جیسے انتہائی اقدا، تک لے جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ رباب یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ مجموعی طور پر جب ہم سماج کو ایک ٹوٹی ہوئی شخصیت عطا کریں گے تو کیسے ممکن ہے کہ سماج اپنا توازن برقرار رکھ سکے؟

ماہرین صحت کے مطابق جنسی جرائم کا شکار ہونے والے بچوں کو طبی علاج سے کہیں ذیادہ نفسیاتی بہتری کی ضرور ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کے والدین کا کونسلنگ میں بنیادی کردار ہوتا ہے۔ بچے کی نفسیاتی تربیت کی جائے تاکہ وہ دوبارہ سے اعتماد کرنا سیکھے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو نارمل رویوں اور تعلقات کے بارے میں وقتا فوقتا رہنمائی دیتے رہیں ۔ اسے سمجھائیں کہ بحران سے مضبوط رہ کر کیسے نمٹا جاتا ہے اور کیسے مثبت طریقوں سے اپنی کھوئی ہوئی عزت نفس بحال کرنی ہے۔ والدین تربیت کے دوران بچے کو سکھائیں کہ ایسے واقعات سے مستقبل میں کیسے محفوظ رہنا ہے اور اگر دوبارہ ایسی صورتحال کا سامنا ہو تو وہ والدین کو آگاہ کریں تاکہ بچہ خود میں کسی خوف کا شکار ہو کر تنہا نہ رہ جائے۔

ماہرین کے مطابق تمام تر طریقہ علاج کے دوران سب سے اہم والدین اور بچوں کے درمیان موجود بہتر تعلقات ہیں ۔ بچے اور والدین میں مضبوط تعلقات ہوں گے تو متاثرہ بچہ پھر سے زندگی کی جانب لوٹ آئے گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے