گلگت بلتستان کا سیاسی ارتقاء اور تاریخی حقائق!
Reading Time: 6 minutesعبدالجبارناصر
(حصہ اول)
تاریخی دستاویز!
گلگت بلتستان اسمبلی کی جانب سے قومی رہنمائی کے لئے پہلی بار کتابی شکل میں ایک بہترین دستاویز فراہم کی گئی ہے ۔ ’’گلگت بلتستان کا مختصر سیاسی ارتقاء 1970 ء سے 2020ء ‘‘نامی دستاویز میں جہاں 1947ء سے 1970ء تک کی گلگت بلتستان کی تاریخ کا انتہائی مختصر ، 1970ء سے 2020ء تک سیاسی ارتقائی جائزہ پیش کیاگیا ہے، وہیں 2015ء سے 2020ء کی اسمبلی کی مکمل 5 سالہ رپورٹ شائع کی گئی ہے، جس میں اسمبلی کی اجتماعی اور ارکان کی انفرادی کارکردگی کو شامل کیاگیاہے۔ دستاویز کے مطابق اس کی نگرانی اسپیکر گلگت بلتستان حاجی فدا محمد ناشاد صاحب اور تدوین سیکریٹری گلگت اسمبلی عبدالرزاق صاحب کی ہے ، اس دستاویز کی تاریخ اشاعت 14اگست 2020ء ہے ۔ مجموعی طور پر 194 صفحات پر مشتمل یہ دستاویز معیاری کاغذ پر بہترین سر ورق، پاکستان اور گلگت بلتستان کے مکمل نقشوں ، سرگرمیوں کی تصاویر اور رپورٹ پر مشتمل ہے اور عملاً خطے کے سیاسی ارتقاء کے سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ اتنی دلچسپ کہ آغاز کے بعد اختتام پر ہی سکون آئے گااور غالباً یہی وجہ ہے کہ ہم نے ایک رات میں ہی مطالعہ مکمل کرلیا۔ اسپیکر حاجی فدا محمد ناشادصاحب اور سیکریٹری عبدالرزاق صاحب کا یہ عمل قابل تحسین اور مبارک باد ہے ، کیونکہ یقیناً نئی نسل اس سے فائدہ اٹھائے گی اور جو تاریخی یا فنی کمی بیشی رہ گئی ہے اس کو تحقیق کے بعد درست کیا جائے گا، امید ہے کہ یہ دستاویز تحقیق اور مصدقہ دستاویز کے لئے بہترین باب ثابت ہوگی اور اغلاط کی درستی ، مزید اضافے کے بعد ایک متفقہ قومی دستاویز بھی بن سکتی ہے۔ یہ دستاویز قومی زبان اردو میں ہے۔ حاجی فدا محمد ناشادصاحب 1983ء سے سیاسی میدان میں ہیں اوروہ بہترین ادیب ، دانشور کے ساتھ ساتھ صحافت سے بھی منسلک رہے ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ پہلی بار اسمبلی سے سرکاری طور پر ایک دستاویز تیار ہوئی ۔ سیکریٹری عبدالرزاق صاحب سے 2009ء کے انتخابات کے دوران ہماری ایک ہی ملاقات کچھ دستاویزات کے سلسلے میں ہوئی وہ اس زمانے غالباً ڈپٹی سیکریٹری تھے ، ایک قابل اور متحریک آفیسر ہیں۔ دستاویز کی فراہمی پر سیکریٹری عبدالرزاق صاحب اور کراچی تک پہنچانے پر بھانجے غلام حسین لون کے لئے ’’ جزاک اللہ خیر‘‘۔
تاریخی اغلاط کی نشاندہی اور درستگی ضروری!
(1)۔دستاویز میں اسپیکر حاجی فدا محمد ناشاد صاحب نے اپنے پیغام میں 1940ء سے 2020ء تک خطے کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ آغاز کے پیراگراف میں ہی لکھتے ہیں کہ ’’1846ء میں گلگت کو بھی مہاراجہ نے انگریزوں سے معاہدہ امرتسر کی روسے خرید لیا اور یوں پورا گلگت بلتستان مہارجہ جموں و کشمیر کے زیر تسلط آگیا‘‘۔ یہاں پر تاریخی طور پر خرید لیا والی بات درست نہیں ہے ، 16 مارچ 1946ء بمطابق 17 ربیع الاول 1262ھ کو ہونے والے 10 دفعات پر مشتمل معاہدہ امرتسر کے تحت جو علاقے75 لاکھ نانک شاہی(اس وقت کی کرنسی ) میں مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریز سرکار سے خریدے اس میں گلگت شامل نہیں تھا ۔ معاہدے کی دفعہ نمبر 1 میں خریدے یا فروخت ہونے والے علاقوں کی مکمل وضاحت موجود ہے ۔ دفعہ نمبر 1 میں واضح طور پر کہاہے کہ ’’سرکار انگلشیہ مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کے وارثان کو تمام ملک کوہستان اور اس کے تابع علاقہ جو دریائے سندھ کے مشرق کی طرف اور مغرب کی جانب دریائے راوی کے درمیان معہ چمبہ ماسوائے لاہور جوکہ ان ممالک کا حصہ نہیں جو برٹش حکومت کو بمطابق دفعہ 4 عہدنامہ لاہور 9مارچ 1946ء کو ملاہے‘‘۔ گلگت دریائے سندھ کے دوسری جانب ہے اور معاہدے کے مطابق انگریز سرکار نے تاوان جنگ کے طور پر سکھوں سے چھین کر ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کو 75 لاکھ نانک شاہی میں جو علاقے فروخت کئے ان میں گلگت شامل نہیں ہے ، یہ ایک مصدقہ تاریخی حقیقت ہے۔ گلگت معاہدے میں شامل نہیں تھا ، مگر جب معاہدے کے دفعہ 2 کے مطابق قائم مشترکہ بارڈر کمیشن نے گلگت کو بھی مہاراجہ کے حوالے کردیا ، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دریا پار کے علاقوں میں گلگت اہم مقام تھا اور اس سے پہلے یاسین کے راجہ گوہر امان مرحوم نے سکھوں کو اپنی زندگی میں قبضہ کرنے نہیں دیا اور ڈٹ کا سکھوں کا مقابلہ کیا۔ 1840ء میں سکھ کمانڈر زوآور سنگھ نے گلگت پر قبضہ کیا اور انگریز سرکار کو مزاحمت کا خدشہ تھا اور زور آور سنگھ نے بھی اپنی وفاداری سکھوں کی بجائے مہاراجہ گلاب سنگھ سے مسلک کی ،اس لئے بارڈر کمیشن کے فیصلے کے تحت گلگت ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ چلا گیا۔ کتاب میں درج ’’خرید لیا‘‘ کی عبارت کو ’’ معاہدے کے تحت قائم بارڈر کمیشن نے مہاراجہ کے حوالے کیا‘‘ میں بدلنا ضروری ہے، تاکہ تاریخ درست ہو۔ اگر فروخت کئے جانے والے علاقوں میں’’ گلگت بھی شامل تھا‘‘ کے حوالے سے حاجی فدا محمد ناشاد صاحب کے پاس کوئی مصدقہ دستاویز ہے تو قوم کو آگا ہ فرمائیں تاکہ سب اپنی اس تاریخی غلطی کو درست کرلیں۔
(2)۔ دستاویز کے اسی پیراگراف میں حاجی فدا محمد ناشاد صاحب لکھتے ہیں کہ ’’1947ء میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کےساتھ ہی علاقے کے لوگوں نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف علم ِ بغاوت(یکم نومبر 1947ء مراد ہے) بلند کرکے جدوجہدِ آزادی کو کامیاب بنایا اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کا اعلان کیا‘‘۔ ’’جدو جہد کو کامیاب بنایا ‘‘ یہاں تک تو بات درست ہے مگر شمولیت کے اعلان والی بات درست ہے اور نہ اس کا کوئی دستاویزی ثبوت ہے ۔ اگر شمولیت کا اعلان کیا تھا تو پھر ’’یکم نومبر 1947ء کی کامیابی کے بعد اسی دن ریاست ’’جمہوریہ گلگت ‘‘ کا اعلان کیوں کیا گیا؟ اس ریاست کے صدر راجہ شاہ رئیس خان ،فوجی سربراہ کرنل مرزا حسن خان اور دیگر کو ریاستی زمہ داریاں کیوں دی گئی اور اپنا الگ جھنڈا کیوں بنایاگیا ؟ شامل ہونے کی خواہش یا پاکستان سے عوام کی محبت و قلبی تعلق کو شمولیت کا اعلان قرار دینا درست نہیں ہے ، اس لئے دستاویز میں اس کی درستی کی بھی ضرورت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فدا محمد ناشاد صاحب اسی پیرگراف میں 73 سال سے شمولیت نہ ہونے کے حوالے سے شکوہ کر رہے ہیں۔
(3)۔ دستاویز کے باقاعدہ صفحہ نمبر 1 کے تیسرے پیراگراف کے آغاز میں ہی لکھاہے کہ ’’ جمہوریہ گلگت کے نام سے یہ علاقہ صرف 16 دن ایک آزاد خود مختار ریاست کی حیثیت سے قائم رہا ، پھر بغیر کسی پیشگی شرائط کے ان علاقوں کو پاکستان میں شامل کردیا گیا‘‘۔ قائم رہا تک تو بات درست ہے مگر ’’ بغیر کسی پیشگی شرائط کے ان علاقوں کو پاکستان میں شامل کردیا گیا‘‘ یہ درست نہیں بلکہ یہ الزام ہے اور اس کی تردید کتب کے ساتھ ساتھ اسی دستاویز میں اسپیکر فدا محمد ناشاد صاحب کے پیغام میں بھی موجود ہے ، جس کا ذکر اوپر آچکاہے۔
(4)۔ صفحہ نمبر 1 کے تیسر ے پیراگراف میں لکھاہے کہ ’’بعد ازاں 14 اگست 1947ء کو چترال اسکائوٹس کی معاونت سے سکردو کو بھی آزاد کرکے پاکستان سے الحاق کردیا گیا‘‘۔ یہ بات دو حوالوں سے خلاف حقیقت ہے ، پہلی بات یہ کہ سکردو(بلتستان )14 اگست 1947ء کو آزاد نہیں ہوا ، بلکہ یکم نومبر 1947ء کو گلگت کی آزادی کے بعد سے بلتستان میں آزادی کی جدوجہد جاری تھی اور یہ 1948ء میں کو ختم ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان سے الحاق کے حوالے سے یکم نومبر 1947ء سے آج 2020ء تک کوئی قانونی دستاویز بنی اور نہ ہے ، یہ ایک مفروضہ ہے۔ اس بات پر تحریک میں شامل بیشتر رہنماء اور مجاہدین تقریباً متفق ہیں کہ یکم نومبر کی آزادی کے بعد فوری طور پر میرآف ہنزہ اور میر آف نگر نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سمیت لیگی قیادت کو خطوط لکھے تھے ، تاہم الحاق قبول کرنے کے حوالے سے جواب کے ضمن میں اتفاق اور نہ کوئی دستاویز موجود ہیں، بلکہ تحریک آزادی کے سرخیل بابر خان کی ڈائری حوالے سے میجر(ر)ڈاکٹر سلطان عبدالحمید (جو سیز فائر تک آزادی کی تحریک میں بطور مجاہد شامل رہے )اپنی کتاب’’ جو ہر خودی‘‘ صفحہ نمبر 136 پر لکھتے ہیں کہ ’’لیگی قیادت کا میری (بابر خان کی)چھٹی کا جواب تھاکہ’’گلگت کے حالات سنے، بےحد خوشی حاصل ہوئی کہ ان پہاڑوں میں بھی آزادی کا شوق پیدا ہواہے۔یہاں سے کسی قسم کی امداد نہیں بھیج سکتے ہیں اور نہ کریں گے۔ ہماری دعائیں تم اور تمہاری قوم کے ساتھ ہیں۔ خدا حافظ‘‘۔ مزید یہ کہ آزادی کے بعد گلگت بلتستان میں شامل ہوا تھا یا الحاق کیا تھا تو 28 اپریل 1949ء کے معاہدہ کراچی کے حصہ ’’الف‘‘ کی شق 7 کے تحت پاکستان نے حکومت آزاد کشمیر سے عارضی انتظام کے لیے کیوں کنٹرول میں لیا ؟ معاہدے کے حصہ الف میں پاکستان کے کرنے کے کام درج ہیں اور شق 7 میں درج ہے کہ ’’ گلگت اور لداخ(بلتستان)کے جملہ انتظامات کا کنٹرول ‘‘۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی پر بھی غور کریں کہ وہ کیا کہتی ہے۔ مزید یہ کہ اگر واقعی گلگت بلتستان پاکستان میں شامل یا اس کا الحاق ہوا ہے تو پھر آج پاکستان میں عبوری انضمام یا عبوری یا مشروط صوبے کی بازگشت کیوں ہے؟ حکومت مشکلات کی شکار کیوں ہے؟ اس کے علاوہ کسی کے پاس کوئی مصدقہ دستاویز ہے تو قوم کے سامنے پیش کرے ۔ ایک سرکاری دستاویز میں کہی پر ’’شامل ہونے کا اعلان کردیا‘‘، کہیں پر ’’شامل کردیاگیا‘‘ اور کہیں پر ’’الحاق کردیا‘‘ لکھنا خوفناک بلکہ تاریخ تبدیل کرنے کی کوشش قرار دی جاسکتی ہے، اس لئے اس غلطی کی درستی نہایت ضروری ہے۔
(5)۔دستاویز کے باقاعدہ صفحہ نمبر 1 کے پہلے پیراگراف میں خطے میں اسلام کے حوالے سے 1381ء کے ساتھ ساتھ بمطابق 783 ھ کو بھی عیسوی لکھا گیا ہے، یہ تصحیح کی غلطی ہے۔
(جاری ہے)