اقتدار کی بھوک اور اقدارکی جدوجہد!
Reading Time: 4 minutesتحریر: عبدالجبارناصر
سید جعفر شاہ مرحوم کی تصویر کے سوا باقی بظاہر یہ دو تصاویر ہیں، مگر عملاً یہ دو رویوں ، دو سوچوں، دو نظر یات، اخلاقی بلندی و پستی ، روایات کی پامالی اور پاسداری،ہوس اقتدار اور اقدار کی جدوجہد کی ترجمان ہیں۔
پہلی تصویر مسلم لیگ(ن) کے سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر اقبال کی تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ خان نیازی سے ملاقات ، پارٹی میں شمولیت اور گلے میں پارٹی مفلر ڈالنے کی ہے ، جبکہ دوسری تصویر پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے مرکزی رہنماء اور سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کے تحریک انصاف گلگت بلتستان کے صوبائی صدر ، سابق جسٹس سید جعفر شاہ کی آخری آرام گاہ پر حاضری اور دعا کی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ پہلی تصویرمنفی رویوں ، سوچ، نظر یات، اخلاقی پستی ، روایات کی پامالی ،ہوس اقتدار اور مفاد پرستی کی ترجمان ہے ۔دوسری تصویر دراصل مثبت رویوں ، سوچ، نظر یات، اخلاقی بلندی ، روایات کی پاسداری اور اقدار کی جدوجہد کی ترجمان ہے ۔ دوسری تصویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے۔
سید جعفر شاہ مرحوم کئی ہفتوں کی علالت کے بعد کورونا وبا میں 11 اکتوبر کو راولپنڈی میں انتقال فرماگئے تھے ، ان کی تدفین غالبٍاً 12 اکتوبر کو گلگت میں ہوئی ۔ شاہ صاحب کے انتقال پر پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ(ن) اور خود تحریک انصاف نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ، سب کاربند رہے مگر افسوس کہ تحریک انصاف کو صبر نہیں آیا اور سوگ کے دوران ہی گلگت بلتستان سے سید جعفر شاہ صاحب کے سیاسی حریف اور مسلم لیگ (ن) کے سابق صوبائی وزیر ڈٖاکٹر اقبال کوتحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ خان نیازی نے ہنگامی طور پر اسلام آباد طلب کیا یا موصوف خود حاضر ہوئے اور گلے میں مفلر ڈالدیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب شاہ صاحب کی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی اور سوئم تک نہیں ہوا تھا۔ ستم یہ دیکھیں کہ ایک پارٹی کے صوبائی صدر اور وزارت اعلیٰ کے متوقع مضبو ط امیدوار کی تدفین میں پارٹی کی مرکزی قیادت میں سے کسی نے شرکت کی اور نہ قبر پر حاضری دی۔
اگر سیف اللہ خان نیازی کے علاقے میں اس طرح کے مواقع کے حوالے سے اخلاقی روایات و اقدار نہیں ہیں یا وہ لا علم تھے تو کم سے کم ڈاکٹر اقبال کو یاد دہانی کرانی چاہئے تھی کہ اس خطے کی اخلاقی رویات اور اقدار اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہیں کہ سیاسی حریف کی قبر کی مٹی خشک ہونے اور ورثاء کے شدت غم میں کمی تک میں کوئی سیاسی سرگرمی کروں ۔ الیکشن ویسے بھی ملتوی ہوئے ، اس لئے جلدی نہیں تھی ، مگر افسوس کہ ایک کو گلگت بلتستان اسمبلی کے حلقہ 3 گلگت 3 میں امیدوار اور دوسرے کو اقتدار کی ہوس نے قابو کرلیا تھا ۔ سیف اللہ خان نیازی ہو یا ڈاکٹر اقبال ہر دو نے اس خطے کی مثبت اخلاقی روایات اور اقدار پر تھو تھو کردیا ، جو لوگ ایک سیٹ کے لئے اس حد تک گر سکتے ہیں تو پھر ان سے کیا مثبت امید رکھی جاسکتی ہے ۔
سید جعفر شاہ کوئی عام فرد نہیں بلکہ چار دہائیوں سے گلگت بلتستان کے حقوق کے لئے سیاسی، عدالتی اور قانونی میدان میں جنگ لڑتے رہے ہیں۔ تین بار گلگت بلتستان کے سب سے بڑے عوامی فورم ’’ناردرن ایریاز کونسل /قانون ساز کونسل ‘‘(1983ء،1987ء1999ء) کا انتخاب جیتا ۔ پیپلزپارٹی میں کارکن سے صوبائی صدر تک پہنچے ۔عدالت کا رخ کیا تو سپریم اپلیٹ کورٹ میں جسٹس بن گئے ۔ ریٹائرڈ ہوئے تو پیپلزپارٹی کے چیف آرگنائزر بنے ۔ آج گلگت بلتستان میں صوبہ نما جو سیٹ آپ ہے یعنی ’’گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر2009ء ‘‘ کے اصل تخلیق کار سید جعفر شاہ صاحب ہی تھے ۔شاہ صاحب مرحوم نے اس آرڈر کی تیاری کے دوران حامی مخالف سب سے بیک ڈور مشاورت کی اور صدر آصف علی زرداری کو راضی کیا ۔ غالباً 2016ء میں پیپلزپارٹی سے کچھ ناراضگی ہوئی اور مختصر خاموشی کے بعد تحریک انصاف کا رخ کیا ۔ غالباً شاہ صاحب کی سیاسی زندگی کا یہ مشکل ترین اور غیر مقبول فیصلہ تھا۔ حشمت اللہ خان صاحب کی جگہ تحریک انصاف نے شاہ صاحب کو صوبائی صدارت دی ۔ بعض ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ کچھ عرصے سے تحریک انصاف کے اندر بعض قوتیں شاہ سے نہ صرف ناخوش بلکہ الیکشن میں ہرانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں ،تاکہ شاہ صاحب جیسے سنجیدہ ،صاحب علم اور گلگت بلتستان کی تاریخ اور قانونی پوزیشن سے واقف شخص وزارت اعلیٰ تک نہ پہنچ سکے اور اس کا ادراک غالباً شاہ صاحب مرحوم کو بھی ہوا تھا ۔
سید جعفر شاہ صاحب کے بعض نظر یات سے اختلاف اپنی جگہ مگر وہ اس خطے کے ایک عظیم فرد اور عوام کے حقوق کے لئے فکر مند رہنماء تھے ۔ غالباً دو سال قبل کراچی تشریف لائے اور ملاقات میں کئی ایشوز پر گفتگو ہوئی اور فون پر بھی رابطہ رہتا ، ایشوز پر لکھے ہمارے مضامین پر بعض اوقات اصلاح بھی فرماتے اور دلیل سے بات کی جائے تو قائل بھی ہوتے ۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم گلگت بلتستان میں تحریک انصاٖ ف کے تین رہنمائوں سے پر امید تھے ۔ سید جعفر شاہ صاحب رب کے حضور پہنچ گئے ، ڈاکٹر محمد زمان کو سیاسی میدان سے تحریک انصاف نے مکمل اوٹ کرکے کونے پر کھڑا کردیا اور حشمت اللہ صاحب کو ٹیکنو کریٹ کا آسرہ دے رکھا ہے ، اگر ترجیحی فہرست میں پہلے نمبر پر نام ہے تو اسمبلی تک رسائی یقینی ہے ،دوسرے نمبر پرہیں تو پھر 30 سے 40 فیصد چانس ہے اور اس کے بعد کے نمبروں سے بہتر ہے کہ دستبردار ہوجائیں ، کیونکہ ٹیکنوکریٹ کی تیسری نشست کے لئے 24 میں کم سے کم بھی 16 نشستوں پر کامیابی ضروری ہے ،وہ بھی اس صورت میں کہ باقی جماعتوں میں سے کسی بھی تین سے زائد نشستیں نہ ہو۔ڈاکٹر اقبال کی شمولیت کا خلاصہ یہی ہے کہ اخلاقیات ،روایات اور اقدار کو طمانچہ مارکر اخلاقی پستی ، روایات کی پامالی ، اقتدار کی بھوک کو فروغ دیا گیا ہے اور اس کا حساب کم سے کم گلگت بلتستان اسمبلی کے حلقہ جی بی اے 3 گلگت 3 کے عوام ضرور لیں گے۔