ایسے تو پھر پورا انٹرنیٹ بند کرنا پڑے گا: عدالت
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پابندی لگانے کی جو وجوہات بتائی جا رہی ہیں اس طرح تو پورا انٹرنیٹ بند کرنا پڑے گا۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ موٹروے پر جرم ہو گیا تو موٹر وے ہی بند کر دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف درخواست شہری اشفاق جٹ نے دائر کی ہے جس میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن، سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی اور چیئرمین پی ٹی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔
جمعرات کو عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو سننے کے بعد تمام مدعا علیہان کو نوٹس جاری کیے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ پی ٹی اے نے 9 اکتوبر کو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی اور واضح حکم جاری کیے بغیر پریس ریلیز کے ذریعے پابندی عائد کی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کی سیکشن 37 ون کے تحت عارضی معطلی کا کوئی تصور نہیں، پی ٹی اے نے وفاقی حکومت یا کابینہ کی منظوری کے بغیر فیصلہ کیا جو پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی ہے لہٰذا پی ٹی اے کو ٹک ٹاک پر پابندی ختم کرنے کا حکم دیا جائے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ ٹک ٹاک ہے کیا چیز؟ اس پر وکیل نے بتایا کہ یہ سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئرنگ ایپ ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کون فیصلہ کرتا ہے کہ یہ مواد غیر اخلاقی ہے اور یہ کہ غیر اخلاقی نہیں؟ کیا ابھی پی ٹی اے نے پیکا 2016 کی شق 37 کے تحت رولز نہیں بنائے؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ رولز فریم نہیں ہوئے، عدالت نے پی ٹی اے کو 90 دن کا وقت دیا تھا۔
عدالت نے نوٹس جاری کر کے تحریری جواب جمع کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔