صحافتی بھیڑیئے
Reading Time: 2 minutesحسب معمول مختلف لکھاریوں کی طرف سے بھیجی گئی کتابوں میں سے ایک کتاب کے ٹائٹل پر نظر پڑی تو میں چونک گیا ،
کتاب کا عنوان تھا۔
“صحافتی بھیڑیئے”
مزید خوشی بلکہ حیرت کی بات یہ تھی کہ کتاب کے مصنف ہمیشہ سے میرے بہت پیارے اور خیبر پختون خواہ کے باصلاحیت نوجوان صحافی وسیم خٹک تھے ۔
کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو وسیم کے ناراض پن اور غصیلے لہجے کا لطف اس لئے زیادہ اُٹھاتا رہا کیونکہ موضوعات میرے صحافتی اور فکری مسلک کے بہت قریب تھے ۔
میرے پڑھنے والے گواھی دینگے کہ زرد صحافت یعنی صحافتی بھیڑیوں کے خلاف میں نے مسلسل اور جارحانہ انداز میں لکھا ہے کیونکہ صحافت غلیظ ہو جائے تو پورے معاشرے کو بدبودار بنا دیتی ہے اور تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اس “ غلاظت “ کی “بدبودارئ “ نے ہمارے معاشرے کو لپیٹ میں لے لیا ہے اس لئے تو مکالمے کی جگہ دشنام شعور کی جگہ جھالت اور دلیل کی جگہ گالی نے لے لی ہے ۔
اور خوفناک بات تو یہ ہے کہ اس فضا کی “تخلیق “ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوئی جس میں سب سے بڑا کردار ان بھیڑیوں نے ہی ادا کیا جو صحافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں ۔
وسیم خٹک کی کتاب صحافتی بھیڑیئے گو کہ ایک اچھی کوشش ہے لیکن بعض حوالوں سے میرے تحفظات بھی ہیں ۔
مثلاً کتاب کا ایک بڑا حصہ اپنے اصل موضوع سے ایک فاصلے پر نظر آیا یعنی انتخاب اور تدوین میں احتیاط نہیں برتی گئی حالانکہ میں پوری طرح جانتا ہوں کہ وسیم ایک پر گو یعنی مسلسل لکھنے والے رائٹر ہیں اور ان کے ھاں مضامین کی کمی ھرگز نہیں پھر چاہئیے تھا کہ مضامین اپنے موضوع کے گرد ہی گھومتے یا کتاب کے نام پر ہی نظر ثانی کرتے بہرحال مضامین غیر دلچسپ ھرگز نہیں ۔
وسیم ایک یونیورسٹی میں صحافت پڑھاتے بھی ہیں بلکہ غالبًا اس شعبے کے سربراہ بھی ہیں اس لئے بحیثیت استاد انہیں سمجھنا چاہئیے تھا کہ اس طرح کی تصنیفات ایک لکھاری کے اپنےقلم سے نکلے ہوئے حرف و لفظ ہی ہوتے ہیں لیکن روایت سے ھٹ کر اس کتاب میں دوسرے قلم کاروں کے مضامین بھی شامل کئے گئے ہیں جو کسی طور جچتے نہیں ۔
وسیم کا لہجہ اگرچہ قدرے غصیلا ہے لیکن لکھتے ہوئے بے بنیاد جذباتیت کی بجائے اعداد و شمار کا سھارا لے کر وہ اپنی بات کو دلیل اور ٹھوس حقائق کی بنیاد پر ہی استوار کرتا ہے ۔اگرچہ وہ میرٹ کی دھجیاں اڑاتے اور پی آر کے سھاروں پر کھڑی “ سینئیر تجزیہ نگاری “ کے شدید ناقد ہیں لیکن وہ اپنی تنقید کو دلیل اور مخالفت کو معنی بھی فراہم کر نے کا ھنر جانتا ہے اس لئے اس کی بات کو آسانی کے ساتھ نہ تو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ جھٹلایا جا سکتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب بد قسمتی سے ہمارے ھاں بڑا صحافی بننے کے لئے کذب بیانی کا ھنر اور پراسرار ایجنڈوں کی تکمیل میں کردار ادا کرنا ہی معیار ٹھرا ہے تو ظاہر ہے کہ مولانا ظفر علی خان ،عبدالمجید سالک ، ضمیر نیازی ، مجید لاھوری اور مرتضیٰ خان میکش کی روشن روایتوں کے امین کتنے ہوں گے؟
البتہ صحافتی بھیڑیئے قدم قدم پر دکھائی دینگے لیکن نوجوان صحافیوں کو داد دینی پڑے گی کہ وہ ناسازگار رتوں اور پرخطر راستوں میں بھی خوف اور خمیازے سے بے نیاز ان بھیڑیوں کے تعاقب میں ہیں۔
مسلسل تعاقب میں۔