معیشت تیزی سے اوپر جا رہی ہے لیکن
Reading Time: 4 minutesکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جس کے سرپلس ہونے کا آج کل چرچا ہے وہ دراصل بیرونی کرنسیوں میں ادائیگی کا توازن ہوتا ہے اور یقینی طور پر معیشت کو دیکھنے کا ایک پیرامیٹر ہے۔
عمران حکومت اس کا کریڈٹ لے رہی ہے اور بجا طور پر لے رہی ہے۔
لیکن یہ واحد پیرامیٹر نہیں ہے اور اس اندھے کی مانند جس نے ہاتھی کی سونڈ کو چھو کر سمجھا تھا کہ ہاتھی بس سونڈ ہی ہے ہم صرف اس پیرامیٹر کو ہی واحد معیار نہیں بنا سکتے۔
اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ عمران خان کے دور میں امپورٹس میں شدید کمی آئی ہے اور اس کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں میں کمی آئی ہے اور اسی اثنا میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی اور کرونا کے دوران پیٹرولیم کی طلب میں شدید کمی نے بھی اس توازن کو سنبھالا دیا ہے۔
ایک بار پھر یہ بات دوہرانی پڑ رہی ہے کہ یہ ایک اچھا انڈیکیٹر ہے نہ کہ واحد انڈیکیٹر ۔
معیشت کا مکمل جائزہ لینے کے لئے درج ذیل انڈیکیٹرز کو بھی دیکھنا ہوگا۔
جی ڈی پی کا سائز
فی کس آمدنی
جی ڈی پی گروتھ
پی پی پی یعنی پرچیز پاور پیریٹی
ایف ڈی آئی یعنی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری
پروڈکشن یعنی پیداوار
انفلیشن
آئیے ان کو باری باری دیکھتے ہیں
جی ڈی پی کا سائز جو دو ہزار اٹھارہ میں تین سو سولہ ارب ڈالر تھا وہ انیس میں دو سو چھہتر ارب ڈالر ہے یعنی چھتیس ارب ڈالر کم ہوا ہے اور اس کا کوئی تعلق کرونا سے نہیں ہے کیونکہ یہ دو ہزار انیس کا جی ڈی پی بمقابلہ دو ہزار اٹھارہ ہے۔
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عوام کا تقریباً چھ ہزار ارب روپیہ کم ہوا ہے۔
فی کس آمدنی جو دو ہزار سولہ میں چھ سو پچاس ڈالر تھی دو ہزار انیس میں وہ پانچ سو ستاسی ڈالر رہ گئی ہے یعنی اس میں تریسٹھ ڈالر فی کس کمی ہوئی ہے اور اس کا بھی کرونا سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کیونکہ یہ بھی دو ہزار انیس سے متعلق ہے۔
جی ڈی پی گروتھ جو دو ہزار اٹھارہ میں پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی وہ دو ہزار انیس میں اعشاریہ نناوے فیصد رہی جبکہ کرونا کا ایفیکٹ ڈال کر یہ منفی ہوگئی جس کا حکومت کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پرچیز پاور پیریٹی دراصل آپ کی امدن اور قوت خرید کے درمیان تعلق کا نام ہے یعنی ہوسکتا ہے کہ آپ کی آمدنی تو بڑھ رہی ہو لیکن خرچ بھی بڑھ رہا ہو جس سے اس بڑھتی ہوئی آمدن کا اپ کے معیار زندگی سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
دو ہزار اٹھارہ میں یہ سینتالیس سو انتالیس ڈالر تھی اور انیس میں چھیالس سو نوے ڈالر
اب دیکھتے ہیں ایف ڈی آئی کو جو دو ہزار سترہ میں چوبیس سو چھیانوے ملین ڈالر تھی اور انیس میں بائیس سو اٹھارہ ملین ڈالر ہوگئی۔
انفلیشن ریٹ دو ہزار اٹھارہ میں تین اعشاریہ اٹھانوے فیصد، دو ہزار انیس میں چھ اعشاریہ چوہتر اور بیس میں گیارہ اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔
اب آپ پورا ہاتھی دیکھ سکتے ہیں اور جان سکتے ہیں کہ ایک نیم بلب انسان کی ہلتی ہوئی ٹانگ کو دیکھ کر اس کی صحت کے بارے میں دعوے کے لئے کتنی ذہانت درکار ہے۔
اب ان عوامل کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیسے اچانک فارن ریمیٹینس بڑھی جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی آمدنیاں کرونا کی وجہ سے کم ہوئی ہیں، اس کا کوئی سائنسی ڈیٹا تو موجود نہیں ہے لیکن ایک بات تو طے شدہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد بیروزگار ہو کر پاکستان واپس آٰئی ہے اور یوں وہ وہاں موجود اپنی جمع پونجی پاکستان بھیج چکی، دوسری وجہ پاکستان میں موجود ان کے خاندان کے باقی افراد کا خرچ بڑھ جانا اور تیسری وجہ ہنڈی حوالے کی طلب میں کمی ہے جو کہ دوبارہ ان افیشل اکانومی کی شرنکیج کا پتہ دے رہی ہے۔
امپورٹس میں کمی بھی بہرطور ایک قطعی اشاریہ نہیں ہے کیونکہ یہ طلب میں کمی کو بھی ظاہر کر رہا ہوتا ہے اور اس کا ایک اور مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ انڈسٹری نہیں لگ رہی، مشینری امپورٹ نہیں ہو رہی اور خام مال بھی نہیں آ رہا۔
اب آجائیں ایکسپورٹ کے بڑھنے کی انڈیکیٹر پر تو یہ وہ واحد خبر ہے جو کہ مثبت ہے۔
ایکسپورٹ کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی کرنسی کا خطے میں سب سے سستا ہونا ہے اور یہ سوال بہرحال ماہرین کر ہی رہے ہیں کہ اس کا کاسٹ بینیفٹ انیلیسس کیا ہے، یعنی اتنی زیادہ ڈی ویلیوایشن کی قیمت کیا ادا کی گئی ہے اور افادہ کیا ہوا۔
ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر آپ کو ہر چیز کے ماہرین وافر تعداد میں مل جاتے ہیں جن میں سے کچھ کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی معیشت تیزی سے اوپر اٹھ رہی ہے، لیکن جیسے پاکستان میں حکما شوگر کا علاج، بائی پاس کا بائی پاس، کینسر کا علاج دریافت کر چکے ہیں اور دنیا نے کوئی توجہ دی اور نہ ہی نوبل انعام دیا بالکل اسی طرح دنیا پاکستان کی معیشت کے اس ابھار کو دیکھنے سے قاصر ہے اور پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ کو ایک فیصد سے زیادہ نہیں دیکھ رہی اور مزید حماقت یہ کر رہی ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کو اس ریس میں کوسوں آگے دکھا رہی ہے۔
وہ دن دور نہیں جب کامران خان دنیا کو ہائیبریڈ جمہوریت کے فوائد سمجھانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور وہ ہم سے متعلق پیش گوئیوں کو تبدیل کر لیں گے۔
آخر میں سہیل وڑائچ کی کتاب
"یہ کمپنی نہیں چلے گی” کو بین کرنے کی استدعا ہے۔