کالم

عربی گھوٹا، قومی نصاب اور باجوہ صاحب

فروری 23, 2021 4 min

عربی گھوٹا، قومی نصاب اور باجوہ صاحب

Reading Time: 4 minutes

اچھا، دیگر تمام دینی و دنیاوی علوم و فنون میں طاق و یکتا ہونے کے علاوہ چونکہ میں ایک بہت بڑا ماہر لسانیات اور ماہر تعلیم بھی ہوں تو مقامی یا مادری زبانوں پر آج کل جو گفتگو چل رہی اس میں بھی ٹانگ اڑانا میرے علمی منصب کا تقاضا ہے، تو سنیں پھر۔

یکساں قومی نصاب کا میں شدید مخالف ہوں، دو تین وجوہات کی بناء پر۔ ایک بڑی وجہ یہ کہ قومی نصاب مرتب کرنے کی ذمہ داری ریاست کی ہے اور ہماری ریاست کی بھینس جس لاٹھی سے ہانکی جاتی ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔

ہر دس بارہ سال بعد ہمارے کسی آرمی چیف کو خیال آتا ہے کہ اللہ نے اسے تین سال بعد عزت سے ریٹائر ہونے کے لیے تو نہیں پیدا کیا۔ پھر وہ اپنے حصے کی ۔۔۔ سمیٹنے کے لیے انقلاب برپا کر دیتا ہے۔

جنرل ضیاء آیا تو امریکا کی تائید و حمایت یا ایماء پر، اور کچھ اپنی داخلی ضروریات کے تحت نصاب میں چُن کر ہیروز اور جہاد شامل کر دیا۔ کسی مرد مومن نے افریقہ میں لشکرکشی کی تھی تو ہم چیچوں کی ملیاں رہنے والوں پر اس کا مطالعہ بھی لازم قرار پایا۔ ایک نسل جہادی رومان کی بھینٹ چڑھ چکی تو جنرل مشرف کو خارش ہونے لگی۔

ایک بار پھر امریکا کی تائید و حمایت یا ایماء پر، بلکہ اس بار تو اس سے اس مقصد کے لیے پیسے بٹور کر محمد بن قاسم نکال کر عاطف اسلم نصاب میں شامل کر دیا گیا۔ عاطف اسلم مذاقا” کہا ہے کوئی ففتھیا دل پر نہ لے۔

مشرف کا کیڑا اس کی کرسی پر ہی رہ گیا تھا، کیانی اور راحیل شریف نے اسے لفٹ نہ کرائی مگر  پھرباجوہ صاحب آ گئے۔ چنانچہ ایک بار پھر نصاب کو قومی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے کا کام جاری ہے بلکہ تقریباً مکمل ہو چکا۔

کسی کو خوش فہمی ہے کہ ایسا عمران خان کے مثالی وژن کے تحت ہو رہا تو جناب ایسا نہیں ہے۔ ادارہ اپنی ضروریات کے تحت فیصلہ کرتا ہے کہ اسے اگلے دس بارہ برسوں کے لیے کس لیول کے اُلو درکار ہیں اور ہمارے تعلیمی ادارے اسی لیول کی پروڈکشن شروع کر دیتے ہیں۔ جن بچوں نے مشرف کے دور میں میٹرک ایف اے کیا وہ ووٹ کس کو دے رہے؟

اب چونکہ باجوہ ڈاکٹرائن چل رہی، جو پی ٹی آئی کی طرح کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا ہے تو اس والے قومی نصاب سے خصوصی ڈر لگ رہا ہے۔ یہ نسل جوان ہونے سے پہلے ہماری نسل کو ملک سے بھاگ جانا چاہیے۔

دوسری وجہ ایک اصولی بات ہے کہ پاکستان چند یونٹوں پر مشتمل ایک فیڈریشن ہے۔ ہر یونٹ کی اپنی اپنی تہذیب، ثقافت اور زبان ہے۔ اور یہ سب مل کر ہی ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کی تشکیل کرتی ہیں۔ تو ہر یونٹ کو خود اپنا نصاب مرتب کرنے دیں۔ یہ نصاب مرتب کرنا بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ پوری پوری کتابیں ہی چھاپ دی جائیں۔ آپ کا کام گائیڈ لائنز مرتب کرنا ہے اور اہداف مقرر کرنا۔ مثلاً جو بچہ پرائمری سے نکلے اسے یہ یہ مہارتیں اس اس سطح پر حاصل ہونی چاہئیں، وغیرہ۔

اور تیسری وجہ یہ کہ جہاں پوری اکانومی لیسے فئیر ہو وہاں پر آپ صرف تعلیم کو نیشنلائز نہیں کر سکتے۔ جب نجی تعلیمی ادارے ہوں گے تو وہ نجی کاروبار ہی کی طرح چلائے جائیں گے۔ وہ ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے اس کے مطابق تعلیم فراہم کریں گے۔ آبادی کے کسی مخصوص سیگمنٹ کو ٹارگٹ کریں گے اور اسے اپنی طرف مائل کرنے کے لیے اپنے نظام تعلیم کو اس کی ضروریات کے تحت ڈھالیں گے۔

تقابل ہمیشہ انتہاؤں میں کیا جاتا ہے۔ ہم ٹاٹ والے بچوں کا موازنہ بیکن ہاؤس اور گرامر سکول کے بچوں سے کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارے بچوں کے لیے ہر دو انتہاؤں کے درمیان مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔

مثلاً اقرا روضتہ الاطفال،  میں سمجھتا تھا روضہ عربی میں مقبرے کو کہتے ہیں۔ یہ نام پہلی بار سنا تو بہت گھبرایا کہ جانے بچوں کے ساتھ یہ کیا کریں گے۔ یہ دینی طبقے کو پیچھے یا آگے لگانے کی کامیاب کوشش ہے۔

اسی طرح ہماری طرف چونکہ بہت سے والدین بچوں کو فوج میں بھیجنا چاہتے ہیں تو متعدد پانچ مرلے پر مشتمل کیڈٹ سکول بھی پائے جاتے ہیں۔ اب ان میں سے ہر ایک کا طریقہ تعلیم دوسرے سے مختلف ہوگا۔ چند بنیادی چیزیں آپ لازم کر سکتے ہیں اور وہ آپ نے کب کی کر دیں۔ اس سے زیادہ مداخلت فری مارکیٹ اکانومی گوارا نہیں کرتی۔

مثال کے طور پر ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ لاہور کے کسی سکول نے والدین کو کہہ ڈالا ہے کہ سوکالڈ یکساں قومی نصاب کے بعد ہمارے لیے آپ کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

آخری اندیشہ یہ ہے کہ جناب خان صاحب اور ان کے ہمنواؤں کی نیت پر شک کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن ان کی اہلیت پر شک کے بہت سے ٹھوس جواز ان ڈھائی سالوں میں پیدا ہو چکے۔ جن سے چلتے ہوئے روٹین کے کام نہیں سنبھالے گئے۔ وہ نصاب میں جو ہم آہنگی لائیں گے اس سے خدا ہمیں محفوظ رکھے۔

جو معاملہ ہے کہ مقامی زبانوں میں سائنسی علوم یا مضامین کی منتقلی۔ تو یہ درست سوچ ہے ایسا ہی ہونا چاہئے۔ مگر ایسا ممکن نہیں ہے۔ چین، جاپان، ترکی یا جس جس نے بھی ایسا کیا ہے، انہوں نے ایسا کرنے سے پہلے بہت کچھ کیا ہے۔ اور وہ بہت کچھ ہم ۷۰ برس میں نہیں کر پائے۔ اس لیے ہمیں معذور سمجھا جائے۔

ایک چھوٹی سی، ذاتی مثال دے کر آپ کی جاں بخشی کرتا ہوں۔

اردو میں زیادہ نہیں تو اتنی دسترس حاصل ہے کہ یہ مضمون اور جو بیشتر آپ نے پہلے پڑھ رکھے وہ یوں لکھے جاتے کہ فیسبک پوچھتا واٹس آن یور مائنڈ اشفاق صاحب، اور ہم اپنی ذہنی قے اس پر الٹ کر پوسٹ کا بٹن دبا دیتے۔ فیسبک پر لکھنے کے لیے سوچنے، سمجھنے یا تحقیق کی ضرورت عموماً نہیں پڑھتی۔ پی ٹی آئی کی منجی ٹھوکنا ہو، یا کوئی بہت ہی سنجیدہ معاملہ تو الگ بات ہے۔

لیکن اس کے باجود میں نے اپنا ذاتی بلاگ اردو کے تمام مضامین ڈلیٹ کر کے انگریزی میں منتقل کر ڈالا ہے۔ کیوں کا جواب علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے۔ مطلب میں جن موضوعات پر لکھنا چاہتا تھا، اردو میں نہیں لکھ پاتا تھا۔ پچھلے آٹھ دس دن میں دس بارہ مضامین لکھے ہیں اور بڑے مزے سے۔ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا، اردو سے جان چھڑا لینے کے بعد۔

بچوں کو سکولوں میں مقامی زبانیں پڑھنے دیں۔ جب پنجابی میں لکھنے، پڑھنے کی عادت بنے گی تو ان میں سے خود ہی کوئی سوچے گا کہ یار یہ کوانٹم کمپیوٹنگ کو میں پنجابی میں منتقل کر کے کیوں نہ دیکھوں؟

ابھی صورتحال یہ ہے کہ میٹرک ایف اے تک اردو،انگریزی پڑھنے والے بی اے ایم اے پنجابی میں کر بھی لیں تو وہ پنجابی انہیں کہیں اور دیکھنے، پڑھنے کو نہیں ملتی۔ نتیجہ وہ نکلتا ہے جو کل رضوان خان بھائی نے بتایا۔ انہوں نے بی اے میں پنجابی رکھی۔ آدھا پیپر اردو میں حل کر کے یاد آیا کہ امتحان پنجابی کا تھا۔

اور اب ہمارے بچوں نے عربی شریف کا گھوٹا بھی لگانا ہے۔ اللہ رحم فرمائے

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے