کالم

"زہر عشق”

فروری 25, 2021 3 min

"زہر عشق”

Reading Time: 3 minutes

نوے کی دہائی میں جب عامر، سلمان اور شاہ رخ نے بالی وڈ کو اینگری ینگ مین سے نجات دلائی، تو پاکستانی فلمسازوں نے بھی سوچا کہ کیوں نہ شائقین کو سلطان راہی اور انجمن کے علاوہ کچھ اور دیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

یہاں سے بالی وڈ کے چربے بنانے کے سنہری دور کا آغاز ہوا۔ مزے کی بات یہ کہ پاکستانی جن انڈین رومانٹک فلموں پر بیدردی سے ہاتھ صاف کر رہے تھے۔ ان میں سے بیشتر پرانی پاکستانی فلموں کا چربہ تھیں۔ مطلب ‘دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی’۔

اس آگ میں شان، ریما اور مدیحہ شاہ کی لاٹری نکل آئی۔ جلد وہ وقت آیا کہ ان تینوں کے پاس دو دو سال کوئی اور فلم سائن کرنے کی گنجائش نہ بچی۔ تب نئے چہروں کی تلاش شروع ہوئی۔ زہر عشق میں ٹی وی اداکار اسد ملک ہیرو تھے اور ہیروئن اللہ جانے کون تھیں۔

ہمارے ایک دوست لاہور میں فلم دیکھ آئے تھے اور بہت تعریف فرمائی تھی۔ پنڈی میں شبستان پر ریلیز ہوئی۔ سوچا دیکھیں گے کہ اسد ہمیں بھی بہت پسند تھے۔ خیر جمعرات کو ایک دوست نے فلموں کے اشتہار دیکھے تو بتایا کہ کل سے شبستان پہ نئی فلم لگنے لگی۔ تو یوں لاسٹ ڈے کے سیکنڈ لاسٹ شو کے لیے ہم بھاگم بھاگ سینیما پہنچے۔

باہر پوسٹرز، بورڈ زہر عشق کے ہی تھے، مگر اندر داخل ہوئے تو پتہ چلا کوئی انگریزی فلم چل رہی۔ مزید علم یہ ہوا کہ زہرعشق منگل ہی کو ڈبہ پیک ہوگئی تھی۔ دو دن گزارنے کے لیے سینیما مالکان نے یہ جگاڑ لگائی ہے۔

تصاویر سے یہ ہانگ کانگ کی مارشل آرٹس مووی دکھائی دی۔ جس میں حق و باطل کی معرکہ آرائیاں بھی تھیں اور حسن و عشق کی رنگینیاں بھی۔ تو سوچا چلیں اب آ ہی گئے تو یہی دیکھ لیتے ہیں۔

ہم چار تھے، اور چار پانچ لوگ اور ہوں گے۔ یہ گیلری کی کل آبادی تھی۔ نیچے سٹال میں بھی بمشکل دس بارہ بندے ہی تھے۔ اب قومی ترانہ ختم ہوا تو معلوم پڑا کہ یہ وہ ہانگ کانگ والی مووی بھی نہیں، جس کی تصاویر سے ہمیں لبھایا گیا تھا۔

یہ فلم شاید ایوب خان یا بھٹو کے دور میں پاکستان آئی تھی اور تب سے ڈبے میں بند تھی۔ دو دن ٹپانے کے لیے اسے جھاڑ پھونک کر پردہ سکرین کی زینت بنا دیا گیا۔

فلم کچھ یوں تھی کہ کمرے میں ایک صاحب پہلے سے موجود تھے، ایک اور آن ٹپکے۔ اور اب دونوں میں مذاکرات کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا۔

اپنا ساونڈ سسٹم بھی کمزور، شبستان کا اس سے بھی گیا گزرا، اور فلم کو بھی تین چار عشروں بعد باہر کی ہوا لگی تھی۔ تو مذاکرات کی نوعیت کیا تھی، یہ ہم آج تک نہ جان پائے۔ چھٹی حس کہتی تھی کہ معاملہ کسی خاتون کا ہے۔ تاہم یہ کسی گائے بھینس یا کتے بلی کا بھی ہو سکتا۔ گاڈ نوز بیٹر۔

بس دونوں صاحبان کی بدن بولی سے اندازہ ہوتا رہا کہ مذاکرات بتدریج دوستانہ سے مفاہمانہ، مفاہمانہ سے معاندانہ اور معاندانہ سے جارحانہ ہوتے چلے گئے۔ اور یہ سرکل بھی متعدد بار دہرایا گیا۔ بالآخر غالباً جو صاحب بعد میں آئے تھے، انہوں نے پہلے والے کو طمنچہ نکال کر گولی مار دی۔

سکرین پر پردہ گر گیا، لائٹس روشن ہو گئیں۔ ہم شائقین کی حیرت پہلے غم میں اور پھر غم غصے میں تبدیل ہو گیا۔ مگر سیٹوں کو لاتیں مارنے اور حلق سے گیدڑ کی آوازیں نکالنے کے سوا بھلا اور کیا کر سکتے تھے۔

اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہمارے ساتھ۔ زہر عشق کو ڈبہ پیک کر دیا گیا۔ ہمیں پوسٹر دکھائے گئے دو سو ارب ڈالرز، پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے۔ اندر پہنچے تو یہاں خان اور باجوے کے باہمی مذاکرات چل رہے۔ ہماری جان تبھی چھوٹنی جب ان میں سے ایک دوسرے کو اڑا دے۔

اس سے تو اچھا تھا ہمارے گنجوں کی زہرعشق ہی چلنے دیتے، دو دن اور۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے