کالم

ایف ڈبلیو او کے مقابلے میں کوئی ٹینڈر بھرنے نہیں آتا

مارچ 14, 2021 7 min

ایف ڈبلیو او کے مقابلے میں کوئی ٹینڈر بھرنے نہیں آتا

Reading Time: 7 minutes

میجر جنرل عرفان احمد ملک نے مریم نواز کو دھمکی کیوں دی؟

مجھے کیا پتہ۔ لیکن میں اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بات یوں نہیں ہوئی ہوگی کہ جنرل صاحب نے کال ملائی اور پوچھا: ہیلو! آپ مریم نواز بول رہی ہیں؟

محترمہ نے فرمایا، جی۔

‘اوکے، میں نے یہ بتانا تھا کہ وی ول سمیش یو، یو روٹن بچ۔ ٹیک کئیر اینڈ اللہ حافظ’

نہیں سر جی، بات ایسے نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے بہت سی باتیں ہوئی ہوں گی۔ اور وہ اس لئے ہوئیں کہ دوطرفہ رابطوں کا چینل کسی نہ کسی صورت پہلے بھی کام کر رہا تھا، اب بھی کام کر رہا ہے۔ اور یہ وہ بات ہے جو اپنے گونگلو اور گوبھی نما ووٹرز اور سپورٹرز کو بتاتے ہوئے آپ کو موت پڑتی ہے۔

اب بات یہاں تک کیسے پہنچی؟ یہ میرا  ہے، مجھے اندر کی کوئی رپورٹ نہیں ملی، لیکن محترمہ کا چند روز پہلے کا ایک بیان تھا، جسے سنتے ہی میں بھی کھٹک گیا تھا۔

محترمہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا "جو ان کو (خان صاحب کو) لائے ہیں، وہی اس کا جواب دیں گے۔ اور جواب تو انہیں اپنے ادارے کو بھی دینا پڑے گا، جس سے انہیں لیز آف لائف ملی تھی۔’

اس کا مطلب کیا ہے؟ یعنی محترمہ کا دعویٰ یہ تھا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا ادارہ مطلب فوج ان کے خلاف ہو چکی ہے اور اس نے انہیں چند ماہ کی مہلت دی ہے، معاملات درست کرنے کی۔

سویلینز کو یہ بات شاید سمجھ نہ آئی ہو، کیونکہ اس بیان پر میں نے حکومت کے کسی ترجمان کو بھی رونا روتے نہیں دیکھا۔ مگر فوج کے سپاہی سے جرنیل تک، جس نے سنا وہ اس بات کی گہرائی تک پہنچ گیا۔ اور جو بھی گہرائی تک پہنچا اس نے محترمہ کو چار گالیاں لازمی دی ہوں گی۔ میں فوج میں ہوتا تو یہی کرتا۔

ایسی سستی اور گھٹیا قسم کی بات کسی بھگوڑے کے منہ سے اچھی لگتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت کی نائب صدر یہ تاثر دے کہ فوج میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور اس کے سربراہ اور سپائی چیف کو ان کے ماتحتوں نے لیز آف لائف دے رکھی ہے، چند شرائط کے تحت۔ یہ لیڈرشپ نہیں ہے محترمہ، نہ ہی اچھی سیاست ہے۔

اس پے ری ایکشن ہوا، ہونا ہی تھا۔ بھگت بھی لیا آپ نے۔ جتنا میں فوج کو جانتا ہوں اسے مدنظر رکھتے مجھے یقین ہے کہ خود جنرل عرفان نے یا ان کے کسی سینیئر نے بعد میں فون پر ہی معذرت بھی کر لی ہوگی کہ "بچہ جذباتی ہوگیا تھا میڈم۔ سوری اور آپ بھی کچھ ہاتھ ہولا رکھیں۔” یہ معاملہ یہیں ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ ابا جی سے بیان دلوا کر نیا کٹا کھلوانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

جن حضرات کو محترمہ کی سلامتی کی فکر پڑ گئی ہے، وہ خاطر جمع رکھیں۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ مریم نواز، بے نظیر نہیں ہے، نہ ہی ادارہ اسے بینظیر بنانے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے۔ بی بی شہید نے پتہ نہیں کیا کچھ برداشت کیا تھا مگر انہوں نے ایسی باتیں کبھی نہیں کی تھیں۔

یہ بالکل فضول بات ہے کہ فوج جنرل باجوہ یا فیض حمید کے خلاف ہوئی بیٹھی ہے۔ ایکسٹنشن والے معاملے پر، خصوصاً حکومت نے جس بے ڈھنگے پن سے اسے ہینڈل کیا تھا اور کھوسہ صاحب جس طرح پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں پڑے تھے۔ اس وقت فوج میں بے چینی پیدا ہوئی تھی۔ بائیس تئیس جرنیلوں کی رینکنگ اور پروموشن پر فرق پڑا تھا۔ کچھ اس بات کا بھی دکھ ہوگا۔ لیکن تب بھی ایسا سوچا تک نہیں گیا تھا کہ اپنے ہی چیف کو زبردستی گھر بھیج دیا جائے۔ اور نہ ہی کبھی ایسا سوچا جانا چاہئے۔ سیاستدانوں کی باہمی کھینچا تانی ہرگز اس قابل نہیں کہ کسی کی حمایت یا مخالفت میں فوج آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دے۔

یہ میری طرح گھر بیٹھے فارغ تجزیہ نگاروں کی خواہشات ہیں جو آپ کو خبر کی صورت پڑھنے کو ملتی ہیں۔ محترمہ اگر ان پر یقین کرتی ہیں تو بیوقوف ہیں اور اگر یقین نہیں کرتیں اور پھر بھی ہمیں یہ تاثر دیتی ہیں تو کمینگی ہے۔

اب آ جائیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی طرف۔ میری ناقص رائے میں، جو کہ گزشتہ ڈھائی تین سال کے مشاہدے سے بنی ہے، میاں صاحب اور ان کی دختر نیک اختر سے زیادہ نقصان کسی نے اس بیانیے کو نہیں پہنچایا۔

ہمارا مسئلہ صرف "ووٹ کے پردے میں میاں صاحب کو عزت دلوانا” نہیں ہے۔ اس ملک میں جنہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہا اور سمجھا جاتا ہے، ان کے مسائل کچھ اور ہیں۔ اور وہ کچھ یوں ہیں۔

بلوچستان اور ایکس فاٹا کے مسائل کی ہینڈلنگ بالکل غلط ہو رہی ہے۔ اس کا ہمیں نقصان ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

اسی سے جڑا معاملہ لاپتہ افراد کا ہے، جن کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جن لوگوں کو آپ نے بلوچستان میں کنسنٹریشن کیمپس میں رکھا ہوا ہے۔ کم از کم ان کی خیریت کی اطلاع ہی ان کے گھروں تک پہنچا دیں۔ جنہیں صرف شبہات یا خدشات کی بناء پر برسوں سے قید رکھا ہے۔ انہیں رہا کریں، اب ان بے چاروں میں سکت ہی کیا رہ گئی ہوگی کچھ کرنے کی۔

خارجہ پالیسی میں بہت کمزوریاں آ گئی ہیں۔ چین کے ساتھ ہم نے اچھا نہیں کیا اور اب چین بھی ہمارے ساتھ اچھا نہیں کر رہا۔

امریکا نے ٹرمپ کے دور میں بھی ہمیں عملاً ٹھینگا ہی دکھایا ہے۔ بائیڈن کے آنے کے بعد معاملات مزید پیچیدہ ہو چکے ہیں۔

میڈیا میں داخلی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے معاملات کو جس طرح سے بلیک آؤٹ کیا جاتا ہے یا ان پر یک طرفہ روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ کہ جاہلوں کی فوج تیار ہو چکی اور پڑھے لکھے مقامی میڈیا پر انحصار کب کا ترک کر چکے۔ اب فوج کے حامی جہلا کا لشکر ہے اور ناقدین سب باخبر، سمجھدار اور ذہین لوگ۔ نتیجے میں اربوں روپیہ پھونک کر بھی ففتھ جنریشن وار میں آپ جہاں تھے، وہیں کھڑے ہیں۔

فوج کے کاروباری اداروں کا پھیلاؤ اور حجم فری مارکیٹ اکانومی میں کاروباری مسابقت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اب جہاں ایف ڈبلیو او ٹینڈر بھر رہی ہے وہاں کوئی اور سامنے ہی نہیں آتا۔ نتیجے میں کام کا معیار بھی گر رہا ہے، ٹیکس وصولی پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ ایف ڈبلیو او صرف ایک مثال ہے۔ ریئل اسٹیٹ سے دلیہ اور کھاد تک یہی حال ہے۔

یہ کچھ بڑے معاملات ہیں، دس مزید گنوا سکتا ہوں۔ لیکن مجھے یہ بتائیں کہ ان میں سے کس معاملے پر آپ نے جناب محمد نواز شریف المعروف ووٹ کو عزت دو کے منہ سے کوئی ڈھنگ کی ایک بات سنی ہو؟

محترمہ مریم نواز نے سوائے بلوچ خواتین کے احتجاج کو فوٹو شوٹ کے لیے استعمال کرنے کے کبھی کوئی پالیسی بیان دیا ہو؟

میڈیا کی جو آزادی انہیں درکار ہے، یعنی حکومت پر دل کھول کر تنقید۔ وہ تو انہیں پہلے ہی میسر ہے۔ جنرل آصف غفور کے بعد سے اب میڈیا خان صاحب پر جتنی تنقید کر رہا ہے اتنی نواز شریف پر کبھی نہیں ہوئی تھی۔

اب ان کے سپورٹرز کا خیال ہے کہ یہ معاملات تبھی درست ہوں گے، جب ووٹ کو عزت ملے گی۔ ووٹ کو تین بار پہلے عزت مل چکی، معاملات حل نہ ہوئے مزید بگاڑ ہی پیدا ہوا تو اس کی کیا وجہ ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ پالیسی ہے نہ وژن۔ میاں صاحب بغیر سوچے سمجھے ریچھ کو جپھی ڈال دیتے ہیں۔ اس کے پیچھے کوئی واضح سوچ، کوئی پلاننگ نہیں ہوتی۔

واضح سوچ اور پلاننگ اب بھی کوئی نہیں۔ یہ فوج کو بار بار نیوٹرل ہونے کا کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ فیئر الیکشن ہوں تو حکومت انہی کی بنے گی۔ اور فوج اس پر راضی ہو جائے تو اصل مسائل جائیں بھاڑ میں۔ ووٹ کو عزت دو کا مطلب ہے، نون لیگ کے ووٹ کو عزت دو۔ باقی انہیں فوج سے کوئی ایشو نہیں۔

جبکہ میرے لئے اور مجھ جیسے لاکھوں دیگر کے لیے "ووٹ کو عزت دو” کے علاوہ بہت سے مسائل ہیں جو ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے منتخب نمائندے فوج کے ساتھ مل بیٹھ کر حل کریں۔ مذہبی انتہا پسندی، لبرل انتہاپسندی، مسلح گروہوں کا دوبارہ منظم ہونا، کشمیر، افغانستان۔ کیا کچھ گنوایا جائے؟

چلیں پہلے ووٹ کو عزت ہی سہی۔ یہی سوچ کر آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن آپ جب جی چاہے مہینوں چپ کا روزہ رکھ لیں۔ جی چاہے تو باجوہ کو اعتماد کا ووٹ دس منٹ میں دلوا دیں اور پھر موڈ بنے تو استعفیٰ طلب کرنے لگیں۔ مطلب یہ کیا حکمت عملی ہے؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟

صرف اور صرف اپنے اور اپنے خاندان کے لیے مراعات اور مواقع کا حصول؟

اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ سیاست اسی لئے کی جاتی ہے۔ پھر سیاست تو ڈھنگ سے کریں کم از کم۔ عوامی حمایت کو اتنا سستا اور فار گرانٹڈ مت لیں۔

یہ بھی آپ کی خوش فہمی ہے کہ پنجاب "ووٹ کو عزت دو” کے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہے۔ پنجابی آپ کے ساتھ اس لئے کھڑے ہیں کہ آپ کا دور ان کی زندگیوں میں کچھ آسانیاں، کچھ مواقع لے کر آیا تھا۔ اور جسے ان آسانیوں اور مواقع کی قدر نہیں تھی۔ خان صاحب کے ڈھائی سالوں نے اسے بھی آپ کا مرید بنا دیا ہے۔

عام پنجابی کو آپ کے اور فوج کے جھگڑوں کی پرواہ نہیں۔ اس نے 2018 میں بھی آپ کو ووٹ دیا، جب بھی الیکشن ہوں دوبارہ بھی آپ ہی کو ووٹ دے گا مگر اس لئے نہیں کہ آپ اسے ٹینکوں کے نیچے لٹا دیں۔ اس لئے کہ آپ پہلے کی طرح اس کے عملی روزمرہ مسائل پہ کام کریں۔

صرف اپنے اقتدار کی خاطر عوام اور فوج کو آمنے سامنے لانے کی کوشش مت کریں پلیز۔ یہ جو فوج کی غلط پالیسیاں اور گنوائی ہیں، یہ جنرل باجوہ اور فیض حمید نہیں لے کر آئے۔

مشرف کے دور سے یعنی کم و بیش دو دہائیوں سے یہی پالیسیاں چل رہی ہیں۔ آرمی چیف یا سپائی چیف کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اور ہمیں وہ لیڈرشپ درکار ہے جو یہ ادراک رکھتی ہو۔ اس کا برملا اعلان کرے اور فوج کے ساتھ بحیثیت ادارہ ڈیل کرے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اسے تین چار جرنیلوں کی کارستانی قرار دے کر آپ ہمیں بیوقوف مت بنائیں۔ اور تین چار جرنیلوں کو دھمکیاں دے کر فوج کو بیوقوف مت بنائیں۔

اگر کوئی حوالدار یہ تحریر پڑھے تو اپنے افسروں کو سمجھائے کہ مریم بی بی کو لندن بھجوا دیں۔ میاں صاحب بھی اس پر قناعت کریں اور پارٹی حمزہ شہباز کو سونپ دیں۔ وہ مریم بی بی سے بہتر چلا لے گا۔

میاں صاحب سے مزید التجا یہ ہے کہ اپنے پپلو گپلو اور ننھی کی باتوں میں مت آئیں۔ یہ آپ کو لے ڈوبیں گے۔

میاں صاحب کی اولاد نے ان کی مت کیسے ماری ہوئی ہے۔ اس پر مستقبل قریب میں یہیں پر تفصیلی اظہار خیال کیا جائے گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے