شعور صرف آمروں کو گالیاں دینے کا نام نہیں
Reading Time: 5 minutesمریم نواز کے بارے میں تحریر پر مختلف آرا سامنے آئیں۔ فرداً فرداً جواب دینا وقت برباد کرنا ہے۔ کوشش کروں گا کہ اٹھائے گئے نکات کا ایک ہی جگہ جواب دے دیا جائے۔
تحریر پر تمام دوستوں کی آراء پڑھیں۔ ریحان بھائی نے درست نشاندھی فرمائی کہ بہرحال اگریسو موڈ (جارحانہ انداز) میں جا کر مریم بی بی اور میاں صاحب نے کچھ نہ کچھ جگہ حاصل کی ہے۔ یہ جائز بات ہے، مانے بغیر چارہ نہیں۔ باقی جن دوستوں نے اسی رائے کا اظہار فرمایا، ان سے بھی اتفاق ہے۔
عاصم اللہ بخش بھائی نے جارح ہونے اور گھمنڈی ہونے میں جو فرق واضح کیا وہ بھی اہم ہے۔ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ معاذ نے کچھ اہم سوال اٹھائے۔ ان کا بھی شکریہ۔
باقی سب سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کسی کی کوئی دلیل مجھے متاثر نہیں کر پائی۔ غالباً میری یہ تحریر دوستوں اور پڑھنے والوں کے لیے غیرمتوقع تھی۔ اس لیے جو فوری ری ایکشن بن پڑا دے دیا گیا۔ ٹھیک ہے، مطلب جو آپ کو صحیح لگتا ہے، آپ اسی پر چلیں۔
کچھ باتیں البتہ معذرت سے غیر ضروری محسوس ہوئیں۔ مثلاً جب آپ مجھے سویلین بالادستی کا مفہوم سمجھانے، اس کی افادیت اور اس کے ضمن میں میاں صاحب کی خدمات پر قائل کرنے کی کوشش فرماتے ہیں تو یہ آپ کا خلوص و محبت ہے۔
مگر ود ڈیو ریسپیکٹ مائی ڈئیر جنٹلمین…. یو آر پریچنگ ٹو دی پوپ۔
اب اس کے جواب میں، میں ویٹی کن کی بالکونی سے آپ کو دیکھ کر ہاتھ ہی ہلا سکتا ہوں۔
معاذ نے 2009 میں فوجیوں کے ساتھ دس دن گزار کر جو نتائج اخذ کیے، وہ بالکل درست ہیں۔ 1999 سے 2003 تک فوج کے ساتھ لگ بھگ ساڑھے تین سال گزار کر میں چھ سال قبل ہی وہ نتائج اخذ کر چکا تھا۔
نہ صرف فوج میں اختلافات ہوتے ہیں۔ بلکہ گروپ بازی، دھڑے بندی کے علاوہ بھی وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ہم سویلینز کی لائف میں چل رہا ہوتا۔ فوجی ہم میں سے ہی ہیں اور ہم جیسے ہی انسان ہیں۔
لیکن مضمون لکھتے وقت میرا خیال تھا کہ مجھے کم از کم اختلاف اور بغاوت کے معانی و مفہوم اور ان دونوں میں فرق واضح کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
خیر، اب یہ واضح کرنے کے لیے فی الحال فوج کو ایک طرف رکھ کر سیاستدانوں پر آ جائیں۔
میاں صاحب نے جب جب فوج سے سینگ پھنسائے، تب تب ان کی کابینہ اور کچن کیبنیٹ کے کم از کم آدھے ارکان سینگ پھنسانے کے حامی نہ تھے۔ لیکن مرضی بہرحال میاں صاحب کی چلی۔
خان صاحب کے بہت سے وزیر صحافیوں کے سامنے اپنی ہی حکومت اور خان صاحب کی پالیسیوں پر دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں۔ لیکن کابینہ اجلاس میں خان صاحب کی مدح سرائی کے علاوہ انہیں کچھ اور کہنے کی ہمت نہیں پڑتی۔
پاکستانی جمہوریت ابھی وہاں نہیں پہنچی جہاں اپنے قائد سے کھلم کھلا اختلاف کیا جا سکے۔ جس جس نے کیا اسے اپنا راستہ ناپنا پڑا۔
آپ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ محمد اشفاق نے میاں صاحب اور مریم نواز پر فیسبک پہ تنقید کی تو یوتھیوں نے گھنگرو باندھ لیے اور پٹواریوں کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ اور خوش فہمیاں یہ کہ فوج جیسے ادارے میں جونیئرز اپنے باسز کو لیز آف لائف دیے بیٹھے۔ سبحان اللہ۔
اس خاکسار نے محترمہ کے بیان کو کم از کم بیوقوفی اور زیادہ سے زیادہ کمینگی سمجھا۔
وجہ اس کی یہ کہ میاں صاحب کو چھ آٹھ ماہ چپ کا روزہ رکھ کر جب دوبارہ ووٹ کو عزت دینے کا خیال آیا تو غالباً گوجرانوالہ کے تاریخی خطاب کے چند دن بعد کا واقعہ ہے۔ ایک مسکین صحافی نے ان سے یہ پوچھ لیا کہ کیا جنرل قمر باجوہ کو اعتماد کا ووٹ دینا ان کی غلطی نہیں تھی؟
اس گندم کا میاں صاحب نے چنا جواب دیا اور دوبارہ آج تک وہ مسکین صحافی ایونز فیلڈ اپارٹمنٹ کے باہر دکھائی نہ دیا۔
جس ملک کے سیاستدانوں سے مشکل سوال پوچھنے کی کسی کو اجازت نہ ملے۔ اس ملک میں کسی کے خیال میں 26 جونیئر جرنیلوں نے دو سینیئر جرنیلوں کو چند ماہ کی مہلت دے رکھی ہے معاملات درست کرنے کی، ورنہ انہیں اٹھا کر باہر پھینکیں گے۔ تو وہ کم سے کم بیوقوف اور زیادہ سے زیادہ کمینہ ہی ہو سکتا ہے۔
میں سوشل میڈیا پر یہی شرلی چھوڑ دوں تو سو پچاس لائیک اور پندرہ بیس شیئر مل جائیں گے اور کسی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
لیکن ایک قومی جماعت اور آرگیوایبلی سب سے بڑی جماعت کی عملاً سربراہ یہ بات کہتی ہے تو جرنیلوں میں اگر چار پانچ حمایتی ہوں بھی تو ایک تو وہ بیک فٹ پر چلے جائیں گے۔ دوسرا مخالف گروپ پہلے سے زیادہ ہوشیار اور پہلے سے زیادہ مخالف ہو جائے گا۔ یہ بیان شاید پانچ چھ دن پہلے کا ہے اور ان پانچ چھ دنوں کی ڈویلپمنٹس دیکھ لیں۔ پھر سکون سے اپنی لیڈر کی دانشمندی کی داد دیتے رہیں۔
معاذ نے ایک اور اہم سوال اٹھایا کہ کیا میں سمجھتا ہوں کہ جو جو غلط پالیسیاں میں نے گنوائیں ان کا ذمہ دار پورا ادارہ ہے؟
جی سو فیصد، میرا ماننا یہی ہے کہ پورے کا پورا ادارہ ذمہ دار ہے۔
اگر ایوب خان سے باجوہ تک کہانی ایک ہی ہے اور کوئی پھر بھی یہ سمجھے کہ ہر دور میں بس تین چار جرنیل ذمہ دار تھے تو بندہ کیا کہہ سکتا ہے۔
جو گیارہ ڈی ایچ اے ہیں ان سے صرف چند جرنیل فائدہ نہیں اٹھاتے۔ جو 26 کاروباری ادارے ہیں ریٹائر ہونے کے بعد صرف جرنیلوں کو ان میں نوکریاں نہیں ملتیں۔ جو ہر سرکاری محکمے کی سربراہی کسی جرنیل کو سونپی جاتی ہے اس سے صرف اس کا بھلا نہیں ہوتا۔ افغانستان اور کشمیر جہاد کے ثمرات صرف جرنیلوں تک نہیں پہنچے تھے۔ صوبیداروں اور حوالداروں کے ہاں بھی خوشحالی آئی تھی۔
شخصی اختلاف ہو سکتا ہے۔ حکمت عملی پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ مشرف اور کیانی میں بداعتمادی اور گروپنگ ہو سکتی ہے۔ لیکن مقاصد اور اہداف سب کے ایک ہوتے ہیں۔ مشرف کیانی کو گالیاں دے یا باجوہ راحیل شریف کو کوسے، کوئی ایک پالیسی جو تبدیل ہوئی ہو کمان مشرف سے باجوہ تک آتے آتے؟
عوامی شعور کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں۔ سرعام گالیاں آج کی بات نہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں ایوب کتا ہائے ہائے۔ مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد یحیٰی خان پنڈی کلب سے نکل کر چہل قدمی کرنے لگا تو لڑکوں نے اسے گالیاں دیں اور پتھر برسائے۔ فوجی گاڑیوں میں اسے ریسکیو کیا گیا۔ ضیاء کو پنجاب نے ہو سکتا ہے گالیاں کم دی ہوں۔ سندھ، بلوچستان اور کے پی والوں سے پوچھیں۔ جب افتخار چودھری کی بحالی کا پہلا لانگ مارچ تھا تو پنڈی کچہری سے پہلے آرمی ہاؤس کے عین سامنے پٹرول پمپ کے آگے ٹریلر کھڑے کر کے میگا فونز پر گالیاں دی گئیں اور مسلسل دس پندرہ منٹ۔ ہم بھی وہاں موجود تھے اور اپنے حصے کا ثواب بھی بٹورا۔
اور شعور صرف آمروں کو گالیاں دینے کا نام نہیں ہے۔ اس قوم نے ہر آمر کو اپنے ووٹ سے دھول چٹوائی ہے۔
ایوب خان اپنے چھان پھٹک کر منتخب کردہ بی ڈی ممبروں ہی سے الیکشن ہار گیا تھا۔
ضیاء کے تابوت کی ابھی پالش بھی نہیں اتری تھی، قوم نے بھٹو کی بیٹی کو وزیراعظم بنا دیا تھا۔
پوری نوے کی دہائی اسٹیبلشمنٹ تیسری طاقت لانچ کرنے میں لگی رہی۔ ہر دو ڈھائی سالہ الیکشن کا نتیجہ بی بی یا میاں صاحب نکلے۔
2002 میں بی بی اور میاں صاحب کی عدم موجودگی کے باوجود کنگز پارٹی کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔ اور 2007 میں بہترین کارکردگی کے باوجود قاف لیگ کا صفایا ہو گیا۔
یہ شعور اللہ ہمارے لیڈروں کو عطا کر دے، تو کیا ہی بات ہے۔ عوام میں تو یہ ہمیشہ رہا ہے اور ان شاءاللہ ہمیشہ رہے گا۔
اگر کوئی تین چار جرنیلوں کے نام لینے سے ہی مطمئن ہے تو مجھے قطعی کوئی اعتراض نہیں۔ اگر میں غیر مطمئن ہوں تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
اور جو گیارہ جماعتیں مل کر ایک محسن داوڑ کا وزن نہ سہہ پائیں، انہوں نے ہر معاملے پر ٹھوس پوزیشن لے رکھی۔ یہ ماننا میرے لیے کچھ مشکل ہے، سوری۔
باقی پپلو، گپلو اور ننھی پر ابھی کچھ اور قرض واجب ہیں، جو علیحدہ مضمون لکھ کر ہی چکائے جا سکتے۔
علاوہ ازیں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ جب جب میاں صاحب نے بم کو لات ماری، پھٹا وہ ہم عوام پر۔ تو آخر کیوں اور کیسے؟
تو اس کیوں اور کیسے کے لیے بھی انتظار فرمائیں۔